Bint e Aisha Posted April 10, 2020 Report Share Posted April 10, 2020 تصوف کے بارے میں ہمارا معاشرتی رویہ اور چند ضروری گذارشات تَصَوُّف( پیری مریدی ، طریقت، صُوفی ازم ) کے بارے میں ہمارے معاشرے میں دو انتہائیں (Extremes) پائی جاتی ہیں۔ایک طبقہ تو تصوف سے وابستہ ہوکر اپنے مشائخ کو (نعوذ باللہ) خدائی اختیارات کی حامل شخصیات تصور کرکےاُن کے ہر قول و عمل کو قرآن و حدیث ہی کی طرح درست اورقابل تقلید تسلیم کرتا ہے ، چاہے وہ قرآن و سنت اور اجماع امت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا طبقہ تصوف کو سِرے سے دین کا حصہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں اور تربیت و اصلاح کے اس نظام کو بدعات کا مجموعہ سمجھتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تصوف کے اصل شرعی تصوّر کو سامنے لایا جائے اور عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو دور کیا جا ئے۔چنانچہ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہم آج سے تصوف کے موضوع پر سوال وجواب کا ایک سلسلہ شروع کر رہے ہیں جس میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیئے جائیں گے: • تصوف(صوفی ازم،پیری مریدی) کیا ہے؟ • قرآنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں مقاصدِ تصوف کا ذکر؟ • صوفیائے کرام کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ • کیا علم تصوف فرض عین ہے؟ • تصوف کیا نہیں ہے۔۔۔ معاشرے میں تصوف کے بارے میں پائے جانے والے تصورات • نَقشبَندی، چِشتی، سُہروَردی اور قادری سلسلوں کی حقیقت کیا ہے؟ • کیا نئے طریقوں سے ذکر کرنا بدعت نہیں؟ • کیا اسلام میں پیری مُریدی کی گنجائش ہے؟ • کیا تصوف کا لفظ قرآن و حدیث میں موجود ہے؟ • بَیعَت سے کیا مُراد ہے؟ • کیااصلاح کے لئے قرآن وحدیث کافی نہیں ؟ کیا پِیر سے تعلق قائم کرنا ضروری ہے؟ • کیا ہر شخص کو پِیربنایا جاسکتا ہے؟ • کیا خواتین بھی بیعت کر سکتی ہیں؟ • پِیر اپنے مُرید کی اِصلاح کیسے کرتا ہے؟ • کیا دین کے دوسرے شعبوں کےکارکنوں اور رہنماؤں کے لئے بھی بیعت ہونااور کسی پیر کے ذریعے اپنی اصلاح کرا نا ضروری ہے؟ • کیا جدیددَورکے مسلمان کے لئے تصوف کی راہ پرچلنا ضروری ہے؟ • کیاتصوف معاشرے کی اِصلاح میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ • کیا صوفیائے کرام ، معاشرے میں دین کو نافِذ کرنے کی کوششوں میں کردارادا نہیں کرتے؟ • کیا صوفیائے کرام جہاد میں حصہ لینے کو ضروری نہیں سمجھتے؟ اہم وضاحت: تصوف،پیری مریدی اور طریقت کےموضوع پر جتنی پوسٹس شئیر کی جائیں گی ( ان شاء اللہ) ان سب کا بنیادی مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ دین کے اس شعبے کی اصل حقیقت عوام کے سامنے لائی جا ئے لیکن اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ تصوف، پیری مریدی اور طریقت کا نام استعمال کر کے ہمارے معاشرے میں بدعات وخرافات اور استحصال کا جوبازار گرم ہے اور اس شعبے کو بعض مفاد پرست عناصرجس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں، وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے. ان پوسٹس کو کبھی بھی ایسے دین فروشوں کی تائید نہ سمجھا جائے۔ ان پوسٹس کا اصل مقصدصرف تصوف کی اس اصل شکل کو پیش کرنا ہے جس کو قرآن پا ک میں تزکیہ اور احادیث مبارکہ میں "احسان" سے پکارا گیا ہے اور جس کی تبلیغ و ترویج کے لیے حضرت حسن بصری ؒ، امام غزالیؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ جیسے علماء و اولیاء نے اپنی ساری زندگی وقف کی اور عوام کے سامنے اس کی اصل تصویر رکھی۔ دوسری گذارش یہ ہے کہ ان پوسٹس میں علمی انداز اور تفصیلی دلائل کے بجائے مختصر اور عام فہم اندازمیں سوالات کے جوابات دیئے جائیں گے۔تفصیلی اور علمی مباحث کے لئے اہم کتابوں کی نشاندہی کی جائے گی ان شاء اللہ۔ #تصوف_سیریز Link to comment Share on other sites More sharing options...
Bint e Aisha Posted April 10, 2020 Author Report Share Posted April 10, 2020 تصوف کے بارے میں پائے جانے والے سوالات اور اُن کے جوابات ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ پہلی قسط ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تصوف کیا ہے؟ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ” تصوف“ دین کاایک اہم شُعبہ ہے جس میں انسان کے”دِل“ اور ”نَفس“ کو پاک اورصاف کرکےاس کی اصلاح کی جاتی ہےتاکہ اللہ تعالیٰ کامستقل دھیان اوررَضا حاصل ہوجائے۔ اصلاح کے دواجزاء ہیں: (1) ظاہری اصلاح (2) باطِنی اصلاح 1. ظاہری اصلاح سے مُراد یہ ہے کہ >> ظاہری اعضاء سے صادِر ہونے والے گناہ (مثلاًجھوٹ،غیبت ،چوری،زِنا وغیرہ) چُھوٹ جائیں اور >> عبادات ،معاملات اور معاشرت(یعنی زندگی کے ہر شعبے میں) میں اچھی صفات اپناکر مکمل دین پرعمل ہونےلگے۔ 2. باطنی اصلاح سے مُرادیہ ہے کہ => عقائد درست ہو جائیں، => اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پرایمان مضبوط ہو جائے، => دِل اور نفس کے گناہ اوربُری صفات ( مثلاً حَسَد، بغض ، ریا، تکبراور کینہ وغیرہ )کی اصلاح ہو جائے اور => اچھی صفات (مثلاًاللہ تعالیٰ کی محبت، اللہ تعالیٰ کا خوف، عاجزی، اخلاص، صبر، شُکر، توکَّل، تسلیم ورضا وغیرہ)حاصل ہوجائیں۔ 3. اللہ تعالیٰ کے دھیان کی کیفیت حاصل کرنے سے مُرادیہ ہے کہ => زندگی کے ہر معاملہ میں یہ کیفیت نصیب ہو جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوں اور وہ میرے ہر ارادے ،عمل اورحرکت کو دیکھ رہا ہے ۔یہ کیفیت مستقل طور پر حاصل ہو جائے تو دین پر عمل کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے اورہرعمل کرتے وقت نیت صرف یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے۔اِس کیفیت کو ”کیفیتِ احسان “ کہتے ہیں۔یہ دین کی اصل ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ کیفیت حاصل تھی اوراِسی کیفیت کو حاصل کرنے کے لئےراہِ تصوف میں مُرشد کی رہنمائی میں مختلف اذکار اور مُراقبات کرائے جاتے ہیں۔ کیفیتِ احسان کا ذکر بخاری شریف (باب الایمان) کی حدیث میں آیا ہوا ہے،جسے حدیثِ جبرائیل بھی کہتے ہیں ۔ فوائد: اس ظاہری اور باطنی اصلاح کےنتیجہ میں؛ => عقائد درست ہو جاتے ہیں اور دل میں محبتِ الٰہی،خوفِ الٰہی اورفکر آخرت جیسی مبارک کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں، => اچھی صفات پیدا ہو جاتی ہیں، => نیک اعمال کرنے کی توفیق مل جاتی ہے اور => غلط عقائد، بُری صفات اور بُرےاعمال سے نجات حاصل ہوجاتی ہے۔ => اچھی صفات کو اخلاقِ حمیدہ اور بُری صفات کو اخلاقِ رَذیلہ کہتے ہیں۔ مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں تصوف کی مختصر تعریف ہم یوں بھی کر سکتے ہیں کہ ؛ ”ظاہر اور باطِن کی اصلاح کا نام تصوف ہے“ یا ”اعلیٰ درجے کا ایمان اور تقویٰ حاصل کرنے کانام تصوف ہے“ نَفس کی اصلاح کرنے کو”تزکیہ نَفس “ اور دِل(قَلب) کی صفائی کے عمل کو” تَصفِیہ قَلب“کہتے ہیں۔ تصوف کو ” طَریقت“ اور”سلوک“ وغیرہ کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا وضاحت سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ”تصوف دراصل دین اسلام کے ایک اہم شعبہ”اخلاقیات“ ہی کا دوسرا نام ہے۔ “ (اقتباس از ”تصوف کی حقیقت“) #تصوف_سیریز Link to comment Share on other sites More sharing options...
Bint e Aisha Posted May 6, 2020 Author Report Share Posted May 6, 2020 تصوف کے بارے میں پائے جانے والے سوالات اور اُن کے جوابات ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ دوسری قسط ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ صوفیائے کرام کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ نبی کریمﷺ کی جن چار بنیادی ذمہ داریوں کو قرآن پاک کی سورہ آ لِ عمران آیت۱۶۴ میں بیان کیا گیاہے،وہ یہ ہیں: (۱) قرآن پاک کی تلاوت (۲) قرآن پاک کی تعلیم (۳) حِکمت کی تعلیم (۴) تزکیہ (یعنی عقائد اور اعمال کی اصلاح کرنا) حضور ﷺ کی وفات کے بعد یہ چاروں کام صحابہ کرامؓ نے سر انجام دیئے اور اُن کے بعد تابعین اور تبع تابعین نے۔ بعد میں ان میں سے ہر ذمہ داری کو سر انجام دینےکے لئے ماہرین تیار ہوئے، جن سے اﷲ تعالیٰ نے اُس میدان میں تفصیلی کام لیا۔ قرآن ِ پاک کی تفسیر کرنے والے (مُفَسِّرین) ،حدیث کےالفاظ کی حفاظت کرنے والے(مُحَدِّثین)، قرآن پاک کی درست تلاوت سکھانے والے (قاری حضرات)اوردین کی سمجھ بُوجھ رکھنے اورتمام مسائل کا حل اُمَّت تک پہنچانے والے ( فُقہاء) کی الگ الگ جماعتیں بنیں۔ بالکل اسی طرح قلب اور نفس کی تربیت کے شعبہ یعنی”تزکیہ نفس“ کو بطورِ خاص جِن بُزرگوں نے اپنی محنت کا میدان بنایا وہ بزرگان دین ’’صوفیائے کرام‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ چنانچہ جس طرح تفسیر، حدیث اور فِقَہ وغیرہ کی تعلیم کے لئے استاد کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح عقائد اور اعمال کی اصلاح کے لئے بھی کسی رہنما اور اُستاد کی ضرورت پڑتی ہے جسے ”پیر“ ،”مُرشد“ یا ” شَیخ “ کہا جاتا ہے۔ (اقتباس از ”تصوف کی حقیقت“) #تصوف_سیریز Link to comment Share on other sites More sharing options...
Bint e Aisha Posted September 22, 2020 Author Report Share Posted September 22, 2020 تصوف کے بارے میں پائے جانے والے سوالات اور اُن کے جوابات ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تیسری قسط ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ قرآن پاک اوراحادیثِ مبارکہ میں مقاصد ِتصوف کاذکر؟؟ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تصوف کی راہ پر چلنے والے مسلمان کی ظاہری اور باطنی صفائی ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں نبی کریمﷺ کی جن چار بنیادی ذمہ داریوں کا ذکر ہے اُن میں سے ایک ذمہ داری، مسلمانوں کے عقائد اور اعمال کا تزکیہ (پاک کرنا) بھی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَقَد مَنَّ اللّٰہُ عَلَی المُؤمِنِینَ اِذ بَعَثَ فِیھِم رَسُولاً مِّن اَ نفُسِھِم یَتلُو عَلَیہِم اٰیَا تِہٖ وَ یُزَکِّیہِم وَ یُعَلِّمُہُمُ الکِتٰبَ والحِکمَۃَ ج وَ اِن کَانُو مِن قَبلُ لَفیِ ضَلٰلٍ مُّبِینٍ ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ اُن کے درمیان اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُن کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے ، اُنہیں پاک صاف بنائے اور اُنہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے،جب کہ یہ لوگ اِس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔)آل عمران،آیت ۱۶۴) ایک دوسری جگہ ارشاد پاک ہے : قَداَفلَحَ مَن تَزَکّٰی ترجمہ: جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا وہ(شخص) یقیناًفلاح پا گیا۔(سورہ الاعلیٰ، آیت ۱۴) گویا تصوف (جس میں انسان کے نَفس اور قلب کی اصلاح ہوتی ہے )کو قرآن ِ پاک نے ’’تزکیہ‘‘ کا نام دیا ہےاور دُنیا اور آخرت میں کامیابی کے لئے نَفس کے ”تزکیہ“ کو ہی بنیادی شرط قرار دیا ہے۔ اِسی طرح قَلب (دِل) کی صفائی کے بارے میں نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ” سُن لو کہ بے شک آدمی کے بدن میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو تمام بدن درست ہو جاتاہے اور جب وہ بگڑجاتا ہے تو تمام بدن فاسد ہو جاتاہے۔سُن لو ! وہ ٹکڑا ”قَلب(دِل)“ ہے۔ (كتاب الإيمان، بخاری) اِس حدیث سے قَلب کی صفائی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ قَلب کی صفائی سے مُراد”تمام غلط عقائدسے نجات حاصل کرنا اوردِل میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صِفات کی مُحبت،عظمت،خوف اور کامل یقین پیدا کرنا ہے۔“ اسی طرح بخاری شریف کی ایک مشہور حدیث (جس کو حدیثِ جبرائیل بھی کہتے ہیں)کے آخر میں نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تُم اُس کو دیکھ رہے ہو ، اوراگر تم اُس کو نہیں دیکھ رہے تو بلاشبہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے ۔“ حدیث شریف میں ذکرکردہ اس کیفیت کو ”کیفیتِ احسان“ کہتے ہیں۔اور اس کامطلب یہ ہے کہ زندگی کے ہر معاملہ میں یہ یقین اور دھیان نصیب ہو جائے کہ میں اپنے اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوں اوروہ ہمارے ہر ارادے ،عمل اورحرکت کو دیکھ رہےہیں ۔یہ کیفیت تمام صحابہ کرام کو حاصل تھی اور ہر مسلمان کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ وہ اس کیفیت کو حاصل کرے ۔اسی کیفیت کا یہ اثر ہوتا ہے کہ ہر عمل کرتے وقت نیت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہو تی ہے۔ اسی کیفیتِ احسان کا حصول تصوف کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے۔اس کے علاوہ قرآن و حدیث میں محبت الٰہی،خوف الٰہی،توبہ،اخلاص،توکل، زہد،صبر، شکر، رجاء،خوف وغیرہ جیسی اعلیٰ دینی صفات کے حصول کی تلقین کی گئی ہے جب کہ حسد،بغض،کینہ،ریا،حُبّ دنیا جیسی صفات کی اصلاح کا حکم دیا گیا ہے اور انہی مقاصد کے حصول کے لئے شعبہ تصوف میں مشائخ کی نگرانی میں مختلف اذکار ومراقبات اورمجاہدات کرائے جاتے ہیں۔ (اقتباس از ”تصوف کی حقیقت“) #تصوف_سیریز Link to comment Share on other sites More sharing options...
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now