Bint e Aisha Posted April 5, 2020 Report Share Posted April 5, 2020 ❁❁ تصوف کیا بلا ہے؟ ❁❁ ╮•┅═══ـ❁🏕❁ـ═══┅•╭ ایک دلچسپ مکالمہ ”ایک مرتبہ ۱۰ بجے صبح کو میں اوپر اپنے کمرہ میں نہایت مشغول تھا، مولوی نصیر نے اوپر جا کر کہا کہ ”رئیس الاحرار (حضرت مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ جن سے حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی بے تکلفی تھی) آئے ہیں، رائے پور جا رہے ہیں، صرف مصافحہ کرنا ہے-“ میں نے کہا ”جلدی بلاؤ” مرحوم اوپر چڑھے اور زینے پر چڑھتے ہی سلام کے بعد مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا کر کہا کہ رائے پور جا رہا ہوں اور ایک سوال آپ سے کر کے جا رہا ہوں، اور پرسوں صبح واپسی ہے، اس کا جواب آپ سوچ رکھیں، واپسی میں جواب لے لوں گا- یہ تصوف کیا بلا ہے؟ اس کی کیا حقیقت ہے؟“ میں نے مصافحہ کرتے کرتے یہ جواب دیا کہ صرف ”تصحیح نیت-“ اس کے سوا کچھ نہیں- جس کی ابتداء ”اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ“ سے ہوتی ہے اور انتہا ”اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ“ ہے- میرے اس جواب پر سکتہ میں طاری ہوگئے اور کہنے لگے، دلّی سے یہ سوچتا آرہا ہوں کہ تُو یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض کروں گا، اور یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض، اس کو تو میں نے سوچا ہی نہیں، ”میں نے کہا جاؤ تانگے والے کو بھی تقاضا ہوگا، میرا بھی حرج ہو رہا ہے، پرسوں تک اس پر اعتراض سوچتے رہنا- اس کا خیال رہے کہ دن میں لمبی بات کا وقت نہیں ملنے کا، دو چار منٹ کو تو دن میں بھی کر لوں گا، لمبی بات چاہو گے تو مغرب کے بعد ہو سکے گی-“ ”مرحوم دوسرے ہی دن شام کو مغرب کے قریب آگئے اور کہا کہ کل رات کو تو ٹہرنا مشکل تھا، اس لئے کہ مجھے فلاں جلسہ میں جانا ہے، اور رات کو تمہارے پاس ٹہرنا ضروری ہوگیا، اس لئے ایک دن پہلے ہی چلا آیا-“ اور یہ بھی کہا کہ ”تمہیں معلوم ہے، مجھے تم سے کبھی نہ عقیدت ہوئی نہ محبت-“ میں نے کہا علٰی ھٰذا القیاس۔“ مرحوم نے کہا ”مگر تمہارے کل کے جواب نے مجھ پر تو بہت اثر کیا، اور میں کل سے اب تک سوچتا رہا- تمہارے جواب پر کوئی اعتراض سمجھ میں نہیں آیا-“ میں نے کہا ”ان شاء اللہ مولانا اعتراض ملنے کا بھی نہیں۔“ ”اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ“ سارے تصوف کی ابتداء ہے اور ”اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ“ سارے تصوف کا منتہا ہے، اسی کو نسبت کہتے ہیں، اسی کو یاد داشت کہتے ہیں، اسی کو حضوری کہتے ہیں۔ ؎ حضوری گر ہمی خواہی، ازو غافل مشو حافظ متی ما تلق من تہوی دع الدنیا وامہلہا میں نے کہا: ”مولوی صاحب سارے پاپڑ اسی لئے بیلے جاتے ہیں- ذکر بالجہر بھی اسی واسطے ہے، مجاہدہ اور مراقبہ بھی اسی واسطے ہے اور جس کو اللہ جل شانہ اپنے لطف وکرم سے کسی بھی طرح یہ دولت عطاء کر دے، اس کو کہیں کی بھی ضرورت نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظر کیمیاء اثر سے ایک ہی نظر میں سب کچھ ہو جاتے تھے اور ان کو کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی، اس کے بعد اکابر اور حکماء امت نے قلبی امراض کی کثرت کی بناء پر مختلف علاج جیسا کہ اطباء بدنی امراض کے لئے تجویز کرتے ہیں، روحانی اطباء روحانی امراض کے لیے ہر زمانے کے مناسب اپنے تجربات جو اسلاف کے تجربات سے مستنبط تھے، نسخے تجویز فرمائے ہیں جو بعضوں کو بہت جلد نفع پہنچاتے ہیں، بعضوں کو بہت دیر لگتی ہے-“ پھر میں نے مرحوم کو متعدد قصے سنائے۔ 📚اپ بیتی نمبر۲ یادِ ایام نمبر۱ ص۵۸-۵۹📚 ✍شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ Link to comment Share on other sites More sharing options...
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now