Bint e Aisha Posted September 19, 2018 Report Share Posted September 19, 2018 بیماری اور مصروفیت کے وقت معمولاتِ کافیہ عید سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ… ’’اعمال کفایت ‘‘ عرض کئے جائیں گے… یعنی وہ ’’معمولات‘‘ جو اگر صبح و شام کر لئے جائیں تو وہ … بندے کی دنیا و آخرت کی حاجات کے لئے کافی ہو جاتے ہیں… ارادہ تھا کہ آج وہ سارے اعمال باحوالہ اور باتفصیل عرض کر دوں… مگر حالت کچھ ایسی ہے کہ تفصیل سے نہیں لکھ سکتا… اسی لئے بس وہی ’’اعمال ‘‘ مختصراً عرض کر دیتا ہوں …آپ میں سے جو صاحب مطالعہ ہیں… ان کو تو تفصیل خود معلوم ہو گی… اور جن کو معلوم نہیں ہے ان کے لئے ان شاء اللہ کسی اور وقت میں تفصیل بیان کر دی جائے گی… مگر ان ’’ معمولات ‘‘سے پہلے دو باتیں اچھی طرح سمجھ لیں (۱)ذکر اللہ اور دعاؤں والے معمولات ہمیشہ پوری کرنے چاہئیں…اعمال اور معمولات میں سستی اچھی بات اور اچھی عادت نہیں ہے… یہ ذکر اللہ اور دعائیں ہمارے وقت کا بہترین مصرف ہیں… اور ان سے ہماری آخرت آباد اور دنیا آسان ہوتی ہے… آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں… مثلاً آپ کے صبح کے معمولات اگر دو گھنٹے کے ہیں تو لوگ سوچیں گے یہ آدمی اور کیا کام کر سکے گا؟… دو گھنٹے صبح کے معمولات، دو گھنٹے شام اور رات کے معمولات… پانچ فرض نمازیں … تہجد، اشراق اور چاشت بھی… دو یا تین وقت کا کھانا… چھ یا سات گھنٹے آرام… پھر زندگی کے کاموں کے لئے کیا وقت بچا؟… مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ… جو شخص اتنے یا اس سے بھی زیادہ… معمولات کرتا ہو… اس کے وقت میں اتنی برکت ہوتی ہے کہ… وہ فارغ لوگوں سے زیادہ کام کر لیتا ہے… اور اللہ تعالیٰ اس کو ایسا وزن، ایسا مقام اور ایسی قدر و قیمت عطاء فرما دیتے ہیں کہ… اس کے لئے مختصر وقت میں بڑے بڑے کام کرنا آسان ہو جاتا ہے … اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ ایک کلرک اور ایک وزیر اعظم کے دستخط میں کتنا فرق ہوتا ہے… وزیراعظم کے دستخط سے بڑے بڑے کام ہو جاتے ہیں حالانکہ دستخط کرنے میں اس کا بھی کلرک جتنا وقت ہی صرف ہوتا ہے… اس لئے اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ذکر کی توفیق دے رکھی ہے… دعاء کا ذوق دے رکھا ہے… درود شریف کی توفیق دے رکھی ہے تو…اپنے ان معمولات کی حفاظت کریں…اور سخت عذر کے علاوہ کبھی اپنے معمولات نہ چھوڑیں … گذشتہ کالم میں حضرت شیخ العالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نور اللہ مرقدہ کی کتاب ’’راحت القلوب‘‘ کا تذکرہ آیا تھا… حضرت شیخ نے اپنی اس کتاب میں دو تین مقامات پر… معمولات اور اعمال مکمل کرنے کی تاکید فرمائی ہے… ان میں سے بس ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں… حضرت بابا جی ارشاد فرماتے ہیں : اگر اہل سلوک کبھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس وقت مردہ ہیں، اگر زندہ ہوتے تو مولیٰ کا ذکر ہم سے الگ نہ ہوتا… بغداد میں ایک بزرگ تھے ہزار بار ذکر اللہ ان کا روزانہ وظیفہ تھا… ایک دن وہ ناغہ ہو گیا… غیب سے آواز آئی کہ فلاں ابن فلاں نہ رہا… لوگ اس آواز کو سن کر جمع ہوئے اور ان بزرگ کے دروازے پر پہنچے مگر وہ زندہ تھے سب حیرت میں پڑ گئے اور بزرگ سے معذرت کرنے لگے کہ غلطی یاغلط فہمی ہوئی… انہوں نے تبسم فرمایا اور کہا آپ صاحبان ٹھیک آئے… جیسا کہ آواز میں سنا ویسا ہی جانو، میرا وظیفہ ناغہ ہو گیا تھا…وہاں اعلان ہو گیا کہ میں مر گیا ہوں… ( راحت القلوب) (۲) انسان کبھی بیمار ہو جاتا ہے… ایسا بیمار کہ اپنے وظیفے اور معمولات کو پورا نہیں کر سکتا… یا بعض اوقات انسان ایسا مصروف ہو جاتا ہے کہ …زندگی تنگ دائرے میں گھومنے لگتی ہے اور معمولات کا موقع نہیں ملتا… تب انسان کو چاہیے کہ…ہاتھ بالکل خالی نہ کرے بلکہ… ان اعمال و معمولات کو اپنا لے جن کے بارے میں …ہمارے آقاﷺ نے سکھایا ہے کہ… یہ اعمال انسان کے لئے… کافی ہو جاتے ہیں… یعنی انسان ان کی برکت سے… اللہ تعالیٰ کی رحمت، حفاظت اور عنایت میں رہتا ہے…اور وہ غفلت اور بڑے حوادث سے محفوظ رہتا ہے… بیماری اور مصروفیت کے دنوں میں اگر ہم ان معمولات کی پابندی کریں جو کہ چند منٹ کے ہیں تو… بہت جلد حالات کھل جاتے ہیں … اور پھر گھنٹوں کے حساب سے پہلے کی طرح… ذکر اللہ اور دیگر معمولات کی توفیق مل جاتی ہے… ان شاء اللہ اعمالِ کفایت صبح کب شروع ہوتی ہے… اور شام کب ؟ … اہل علم اور اہل دل کے کئی اقوال ہیں… مضبوط اور اطمینان والی بات یہ ہے کہ… صبح صادق سے صبح شروع ہو جاتی ہے… یعنی جن اعمال اور دعاؤں کے بارے میں آقا مدنیﷺ نے صبح پڑھنے کا حکم فرمایا ہے… وہ صبح صادق یعنی فجر کی نماز کا وقت داخل ہوتے ہی پڑھے جا سکتے ہیں… اور شام غروب آفتاب سے شروع ہوتی ہے … یعنی جب سورج غروب ہو جائے افطار اور نماز مغرب کا وقت داخل ہو جائے تو یہ شام ہو گئی… اب وہ اعمال اور دعائیں ادا کی جا سکتی ہیں جن کو حضرت آقا مدنیﷺ نے شام کے وقت ادا کرنے کا حکم فرمایا ہے… فرض نمازیں تو بہرحال ضرور ادا کرنی ہیں … البتہ خواتین کے لئے عذر کے ایام میں نمازیں معاف ہیں…نمازوں کے بعد صبح شام کے اعمال کفایت یہ ہیں : (۱) صبح و شام تین تین بار سورہ اخلاص، سورۃ الفلق، سورۃ الناس (۲) سید الاستغفار اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّی لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَأَنَا عَبْدُکَ وَأَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوْئُُ لَکَ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَإِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ (۳) یہ دو دعائیں تین تین بار أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (۴) سات بار یہ دعاء ( آیت) حَسْبِیَ اﷲُ لَا اِلٰہَ الَّا ھُوَ عَلَیہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ (۵) ایک بار یہ دعاء جو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس ﷺ سے روایت فرمائی ہے: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ مَا شَآئَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا۔اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ دَآبَّۃٍ اَنْتَ اٰخِذٌم بِنَاصِیَتِہَا اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۶)سورۂ فاتحہ پھر سورۂ بقرہ کی پہلی آیات ’’المفلحون‘‘ تک… آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی آیات ’’خالدون‘‘ تک… اور سورہ ٔبقرہ کی آخری آیات اٰمن الرسول سے آخر تک آخری گذارش بندہ بے علم اور ناچیز طویل عرصہ سے… مسنون دعاؤں اور معمولات کے مطالعے سے شغف رکھتا ہے…جب کوئی کتاب پڑھی اس میں دعاؤں کی طرف ہمیشہ خاص توجہ رہی… ابھی ’’راحت القلوب‘‘ پڑھی تو اس میں بھی دعاؤں اور وظائف پر نشانات لگا لئے ہیں اور ایک وظیفہ اپنے معمولات میں بھی شامل کر لیا ہے… حتی کہ بخاری شریف پڑھتے پڑھاتے وقت بھی… یہی ذوق رہا… جہاد اور دعاء… اس لئے اپنی اس طویل مگر محدود تجربے کی بنیاد پر… یہ چھ اعمال کفایت منتخب کئے ہیں… یقیناً اہل علم کے پاس اس بارے میں زیادہ علم ہو گا ان میں سے کئی مشورہ بھی دینا چاہتے ہوں گے… ان سے گذارش ہے کہ… وہ اپنے علم کے مطابق عمل فرمائیں… بندہ نے تو اپنے جیسے افراد کے لئے یہ نصاب منتخب کیا ہے… اور بندہ کا وجدان بھی یہی ہے کہ جب صبح اور شام یہ چھ اعمال ہو جائیں تو دل میں ایک اطمینان سا محسوس ہونے لگتا ہے… اور ویسے بھی پہلے عرض کر دیا ہے کہ … یہ چھ اعمال اس صورت میں ہیں جب بیماری نے زیادہ اعمال سے عاجز کر دیا ہو… یا مصروفیات نے مکمل گھیراؤ کر لیا ہو… عام حالات میں تو جی بھر کر ذکر، دعاء اور معمولات کرنا ہی… اہل ایمان کا طریقہ ہے… لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ مولانا مسعود ازہر حفظہ اللہ Link to comment Share on other sites More sharing options...
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now