Bint e Aisha Posted November 2, 2017 Report Share Posted November 2, 2017 ذاکر گناہگار اور غافل گناہگار ایک وہ شخص ہے جو پابندی کے ساتھ کچھ ذکر و اذکار کرتا ہے لیکن ساتھ ہی کچھ کچھ گناہوں میں بھی مبتلا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص ہے جو گناہوں میں مبتلا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ شانہ کو کبھی یاد بھی نہیں کرتا۔ پہلا شخص ذاکر گناہگار ہے جبکہ دوسرا شخص غافل گناہگار۔ ذاکر گناہگار گناہوں کا کامل مزہ حاصل نہیں کرتا کیونکہ ذکر کے معمول کی برکت سے اسے ایک دھڑکا لگا رہتا ہے، چھپا ہوا ایک خوف ہوتا ہے جو اسے گناہوں سے مکمل طور پر لطف اندوز ہونے نہیں دیتا۔ اور ناقص مزے کو چھاڑنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ جبکہ غافل گناہگار گناہوں کا کامل مزہ لیتا ہے، اور کامل مزے کو چھوڑنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا گناہ چھوٹے نہ چھوٹے، اللہ کو نہ چھوڑو۔ ان شآء اللہ گناہ چھوٹ جائیں گے۔ روزآنہ کسی بھی وقت دن بھر میں کوئی ایک وقت مقرر کرکے چار تسبیحات (یعنی سو سو بار) کا معمول بنالیں۔ (۱) لا الہ الا اللہ (۲) اللہ اللہ (۳) استغفار (۴) درود شریف از تعلیماتِ شیخ حضرت حافظ شاہ محمد احمد صاحب دامت برکاتہم Link to comment Share on other sites More sharing options...
ummtaalib Posted November 2, 2017 Report Share Posted November 2, 2017 Oh this sounds interesting but would take too long to read Link to comment Share on other sites More sharing options...
Bint e Aisha Posted November 2, 2017 Author Report Share Posted November 2, 2017 Translation: There is one man who does dhikr regularly but he is also involved in sins. On the other hand there is another man who is involved in sins and at the same time he does not remember Allah (SWT). The former one is ZAKIR GUNAHGAR while the latter is GHAFIL GUNAHGAR (reckless sinner) The zakir gunahgar does not attain full pleasure from his sins. Due to the barakah of his dhikr, he has some hidden fear that does not allow him to completely enjoy his sins. And it is relatively easy to leave this deficient enjoyment. While the reckless sinnner attains full pleasure from his sins, and it is quite difficult to leave this full pleasure. So even if it is difficult to leave sins, do not leave Allah. InshaAllah the sins will get forsaken automatically. Make it your regular habit by setting a time each day to recite these four tasbeehat: 1. Lailaha illallah 2. Allah Allah 3. Istaghfar 4. Durood Shareef From the teachings of Shaykh Hazrat Hafiz Shah Muhammad Ahmed Sahab DB 1 Link to comment Share on other sites More sharing options...
Bint e Aisha Posted November 8, 2017 Author Report Share Posted November 8, 2017 مجاہدات سلوک کی شرعی حیثیت اللہ جل شانہ کا ارشاد پاک ہے : طہٰ! ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نہیں اتاراکہ آپ خواہ مخواہ کسی محنت شاقہ اور تکلیف شدید میں مبتلا ہوں ۔” ( طہٰ :1،2 ) بعض روایات میں ہے کہ ابتدائے اسلام میں حضور ﷺ تہجد کی نماز میں کھڑے ہوکر بہت زیادہ قرآن پڑھتے تھے جس کی وجہ سے پیروں میں ورم آجاتا تھا اس آیت میں اسی مجاہدہ وریاضت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( ابن مردویہ ) 2۔ارشاد ربانی ہے : “اے مزمل! راتوں کو اپنے پروردگار کی عبادت میں کھڑے رہا کرو ، ہاں ! شب کا کچھ حصہ یعنی آدھی رات یا تہائی رات یا دو تہائی رات آرام بھی کرلیا کرو۔ اور قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھو ۔ ہم آپ پر ایک گراں بار کلام اتارنے والے ہیں ۔ بے شک شب بیداری بڑی بھاری ریاضت اور نفس کشی ہے ۔ ( المزمل :2،1 ) 3۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے ضرور دکھاتے ہیں ۔” ( العنکبوت ) ان آیات سے معلوم ہو ا کہ مشقوں اورشدائد کو جھیلنے کے بعد ہی انسان میں پختگی آتی ہے ۔ ریاضات ومجاہدات کی چھلنی میں چھلنے کے بعد ہی کردار وعزیمت کی راہیں ہموار ہوتی ہیں ۔ا ن آیات میں یہ اشارہ بھی ہے کہ نبی کریمﷺ کے عالی ترین رتبے اور مقام کا ایک راز سخت ترین مشقتیں برداشت کرنا بھی ہے ۔سورہ طہٰ اور مزمل کی آیات میں مزید ایک فائدہ یہ بھی بیان کیا گیاہے مجاہدات وریاضات میں افراط اورحد سے تجاوز نہیں ہونا چاہیے اعتدال اور میانہ روی کو ہر دم ملحوظ نظر رکھنا چاہیے۔مجاہدات میں اتان غلو نہیں ہونا چاہیے کہ خوس اپنی ذات اور اہل وعیال کے حقوق سے غفلت ہوجائے ۔ 4۔ حضرت فضالہ کامل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کامل مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مقابلے میں اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے ” ( بیہقی فی شعب الایمان بحوالہ لتکشف ص 204 ) 5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” اے ابن آدم تو میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا میں تیرے دل کو غنا سے بھر دوں گااور تیری محتاجی کو ختم کروں گا اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو تیرے دونوں ہاتھوں کو مشاغل سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی بھی ختم نہیں کروں گا ۔” ( ترمذی بحوالہ ( ص 383) 6۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن بانس کی ایک دیوار کی گار ے سے لپائی کررہاتھا کہ وہاں سے نبی کریم ﷺکا گزرہوا۔آپ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا عبداللہ یہ کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا : حضورﷺ دیوار کی مرمت کررہا ہوں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں تو موت کو اس سےسے بھی جلدی آنے والی دیکھتا ہوں (ابوداؤد ترمذی بحوالہ المکشف ص 272) حضرت جابررضی اللہ عنہ ، حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایک موقع پر کہا ہو ا قول نقل کرتے ہیں : تمہیں جس چیز کا شوق ہو اسے خرید ہی لیتے ہو۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں کیونکہ آدمی کے مسرف ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جس چیز کی چاہت ہو اسے خرید کر کھالیاکرے ( موطا مالک بحوالہ التکشف ص334 ) حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جوشخص قدرت کے باوجود زینت کے لباس کو ازراہ تواضع چھوڑ دے گا ۔ قیامت کے دن اللہ اسے عزت واکرام کے طور پر تمام خلائق کے سامنے بلائیں گے اور یہ اختیار دیں گے کہ ایمان کے جوڑوں میں سے جو جوڑا پسند ہو پہن لے۔ اگر چہ ایمانی رتبے کے اعتبار سے وہ اس سے کم درجہ کا مستحق ہو۔ (ترمذی بحوالہ التکشف ص377) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت کی مثل ہے “۔ ( مشکوۃ : 439) حضرت ابو ہریرہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جہنم کو خواہشات کی پیروی سے اور جنت کو شدائد اور مشقوں کے جھیلنے سے ڈھانپا گیاہے ۔ ” ( مشکوۃ :439) 11۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ دعا فرمائی : ” اے اللہ ! آل محمد کا رزق بقدرکفایت کردے ( مشکوۃ: 440) ان تمام احادیث میں ریاضت ومجاہدہ کی زندگی گزارنے کا سبق ملتا ہے بشرطیکہ ا س پر صبر اور دوام آسکے ۔ اگر مجاہدہ اور قناعت والی زندگی پر صبر نہ ہوسکے یا ریاضت پر دوام نہ کرسکتا ہو تو وسعت اور فراخی سے زندگی گزارے اور جس قدر طاقت ہو اتنے ہی مجاہدات کرے یہ تووہ احادیث تھیں جن سے مجاہدہ کی اصل ثابت ہوتی ہے اب ایسی احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن میں مجاہدات کے ثبوت کے ساتھ ساتھ تنبیہ بھی پائی جاتی ہے کہ ان مجاہدات وریاضت میں غلو نہ ہونا چاہیے ۔اعتدال اور میانہ روی ہونی چاہیے۔ 12۔ حضرت انس ر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لائے تو ایک رسی کو دیکھا جودوستونوں کےدرمیان بندھی ہوئی تھی ۔ فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ حاضرین نے عرض کی کہ یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ باندھی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جب عبادت م نشاط کی کمی محسوس ہو تو اس سے لگ کر کھڑی ہوجائے۔ حضورﷺ نے ارشادفرمایا : یہ طریقہ ٹھیک نہیں ، رسی کھول دو، نماز تہجد طبیعت کی تازگی تک پڑھنی چاہیے اور جب احساس تھکن ہو تو بیٹھ جانا چاہیے ۔ ( بخاری ، نسائی ، ابو داؤد بحوالہ المکشف :265 ) حضرت عبداللہ بن عباس جب خوارج کی تفہیم کے لیے گئے تویمن کا ایک عمدہ جوڑا پہن کر تشریف لے گئے ، خوارج نے اس پر اعتراض کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم اس کی وجہ سے مجھ پر کیوں اعتراض کررہے ہو ، میں نے خودرسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک پر نفیس جوڑا دیکھا ہے۔” ( ابوداؤد بحوالہ المکشف ص378) 14۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ہر نئے کام میں ابتداء جوش وخروش ہوتا ہے اورہر جوش کا انجام سستی ہے ۔ لہذا صاحب عمل کو دیکھنا چاہیے اگر وہ میانہ روی کے ساتھ ٹھیک ٹھیک کام کرےتو اس کی کامیابی کی امید رکھو اور اگر اتنا زیادہ کام کرے کہ اس پر انگلیوں سے اشارے ہونے لگیں تو اس کو زیادہ اہمیت مت دو ( ترمذی بحوالہ التکشف ص 417) 15: حضورﷺ کا ارشاد ہے : ” مشقت اتنی اٹھاؤ جس کو نبھانے کی طاقت ہو۔ ( بخاری،مسلم بحوالہ التشرف ) 16: ارشاد نبوی ہے : ” میانہ روی تمام امور میں بہترین چیز ہے ۔ ” ( بیہقی بحوالہ التشرف ) ان تما م قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے صاف صاف یہ ثابت ہوتا ہے کہ مجاہدات وریاضات کوئی بے اصل چیز نہیں ، بلکہ شریعت میں اس کا ثبوت ہے ۔ ایک چیز بدعت اس وقت ہوتی ہے جب وہ کسی اصل شرعی سے ثابت یا اس کے تحت داخل نہ ہو اور اہل تصوف کے ہاں رائج مجاہدات وریاضات اصل شرعی کے تحت داخل ہی نہیں ثابت بھی ہیں ۔ لہذا انہیں بدعت کہنا سراسر ناواقفیت اور لاعلمی کی دلیل ہے۔ مذکورہ بالا آیاتواحادیث سے ” مجاہدات ” کی اصل ثابت ہوتی ہی ہے قیاس شرعی عقل اور درایت سے بھی اس کا ثبوت واضح ہے جویہ ہے : حضرت انسان اول جب جنت میں تھے توکوئی بیماری لاحق نہ ہوتی تھی لیکن جب جنت اورقرب ومعرفت الٰہی کے بدیہی دلائل سے دوری ہوئی اورحضرت انسان دنیا پر آیا تو جسمانی بیماریاں ظاہر ہونے لگیں اورقیام جنت کے زمانہ سے جتنا فاصلہ ہوتا گیا اتنی بیامریاں وجود میں آنے لگیں گذشتہ دور میں جتنی بیماریاں تھیں دورحاضر میں اس سے زیادہ تعداد میں ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتارہے گا اللہ تعالیٰ نے ا ن جسمانی بیماریوں کے تدارک کے لیے علم طب کو پیدا فرمایا جو مختلف بیماریوں کا مختلف نسخہ جات سے اور موسموں اور طبیعتوں کے لحاظ سے علاج کرتا ہے اور مریض کو دوران علاج بہت سی چیزوں سے پرہیز کراتا ہے کڑوی دوائی اور مختلف قسم کی پابندیوں پر کاربند رہنے کے بعدس مریض کو شفایابی ہوتی ہے پھر طب کے طریقے اورسلسلے بھی متعدد ہیں ۔ مثلا : طبس یونانی ، ہومیو پیتھی ، ایلو پیتھی وغیرہ ۔ بالکل اسی طرح دور نبوی وعہد صحابہ میں بھی تصوف یعنی طب روحانی کی ضرورت نہ تھی ، جیسے جیسے زمانہ نبوت سے بعد ہوتا گیا طب روحانی کی ضرورت محسوس ہونے لگی ۔سوچنے کی بات ہے کہ اللہ جل شانہ نے جب انسان کی جسمانی بیماریوں کے لیےطب کو پیدا کیا تو کیا وہی خدا انسان کی روحانی بیماریوں کے لیے کوئی طب پیدا نہیں کرے گا۔ جبکہ مقام ومرتبہ میں روح کا درجہ زیادہ بھی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خیر القرون میں ہی طب روحانی کو وجود بخشا جوروح کی مختلف بیماریوں کا مختلف طریقوں سے، طبیعتو ں کے لحاظ سے علاج کرتی ہے اورروحانی بیماریوں کے خاتمے اور مقصود اصلی یعنی قرب ومعیت الٰہی کے حصول کے لیے متعدد ریاضات ومجاہدات کراتی ہے اور اس کے بھی نقشبنیہ، چشتیہ ، قادریہ ، سہروردیہ کی صورتوں میں متعددسلسلے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو محض وسائل کے درجہ میں سمجھاجاتا ہے مقصود نہیں سمجھاجاتا۔ مقصود تو صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے تعلق مع اللہ ، قرب خداوندی اور معیت الٰہی ۔ تحریر: مفتی انس عبدالرحیم Suffah Link to comment Share on other sites More sharing options...
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now