Jump to content
IslamicTeachings.org

Bint e Aisha

Recommended Posts

قادیانیوں سے میل جول اور کھانے پینے کا حکم  

 
اگرکوئی قادیانی کلاس میں پڑھتاہو یاکوئی رشتہ دارقادیانی ہو تواس سے بات کرنایااس کے گھر جاناکیساہے ؟ اوراس کے ساتھ کھاناکھاناکیساہے ؟
 
 
قادیانی شریعت وآئین کی روسے دائرہ اسلام سے خارج ہیں،بوقت ضرورت ان سے کلام ،گفتگودرست ہے۔البتہ دوستی اوریارانہ رکھناخطرناک ہے۔نیزقادیانیوں کے ہاں کھاناپینابھی
ٹھیک نہیں ہے۔
 
:مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں
 
"اگردین کوفتنے سے محفوظ رکھناچاہتے ہوں تو (قادیانیوں سے )قطع تعلق کرلیناچاہیئے،ان سے رشتہ ناتا کرنا ان کے ساتھ خلط ملط رکھناجس کادین اور عقائد پر اثر پڑے ناجائز ہے.............اور قادیانیوں کے ساتھ کھانا پینا رکھنا خطرناک ہے۔"
 
1/325،دارالاشاعت)فقط واللہ اعلم)
 
Link to comment
Share on other sites

قادیانی کے خلاف حضرت گنگوہی کا فتوی

 

السلام علیکم کتاب المھند کے صفحہ 86 پر یہ لکھا ہے کہ مولانا رشید احمد گنگوہی کا فتوی ہے کہ قادیانی کافر ہے، یہ ایک بریلوی صاحب کا اعتراض ہے کہ المھند میں غلط حوالہ دیا گیا ہے اور مولانا رشید صاحب کا ایسا کوئی فتوی ہے ہی نہں۔ تو برائے کرم مجھے مولانا رشید صاحب کے فتوے کا حوالہ دے دیں کہ انھوں نے کہاں قادیانی کو کافر کہا ہے۔ جزاک اللہ

 

کتاب باقیات فتاویٰ رشیدیہ میں مرزا قادیانی کے بارے حضرت مولانا گنگوہی رحمہ اللہ کے فتاوی موجود ہیں، جن کی عبارت درج ذیل ہے:
 
مرزا غلام احمد قادیانی، بوجہ ان تاویلات فاسدہ اور ہفوات باطلہ کے، منجملہ دجالوں کذابوں کے، خارج از طریقہ اہل سنت و داخل زمرہ اہل اہواء ہے، اور اس کے اتباع بھی مثل اس کے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے کلمات و دعاوی، جہاں تک مجھے معلوم ہوئے، بیشک موجب فسق ہیں، اور قطعا فاسق و ضال و مضل اور داخل فرقہائے مبتدعہ و اہل ہوا ہے۔ اس سے اور اس کے پیروان سے ملنا ہرگز ہرگز جائز نہیں اور جو لوگ اس کی تکفیر کرتے ہیں، وہ بھی حق پر ہیں.
 
 
 باقیات فتاوی رشیدیہ، ص:37-38، ط: حضرت مفتی الٰہی بخش اکیڈمی کاندھلہ یوپی انڈیا
 
 
 
 
Link to comment
Share on other sites

 حضرت علامہ سیّد محمد انور شاہ کشمیریؒ

 

 
 حضرت علامہ محمد انور شاہ محدث کشمیریؒ بہت بڑے عالم، زاہد و عابد اور سچے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔

 

 ء1926 میں احمدپور شرقیہ بہاولپور کی ایک مسلمان عورتنے بہاولپور کی ایک عدالت میں دعویٰ کیا کہ اس کا شوہر مرزائی ہو چکا ہے۔ لہٰذا اس کا نکاح فسخ کیا جائے۔ اس مقدمہ میں تمام مشاہیر علما کو شہادت کے لیے عدالت میں بلایا گیا۔ جب یہ مقدمہ آخری مراحل میں پہنچا تو شیخ الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد گھوٹویؒ، حضرت مفتی صادق صاحبؒ اور تمام علما نے استدعا کی کہ حضرت شاہ صاحبؒ کا ایک علمی بیان عدالت میں ہونا چاہیے۔ شاہ صاحبؒ ان دنوں خونی بواسیر کے سخت مریض تھے۔ ڈاکٹروں حکیموں نے سفر سے بالکل روک دیا تھا۔ اسی سال حج کا بھی ارادہ تھا۔ کمزوری بہت ہو چکی تھی، لیکن جونہی شاہ صاحبؒ کو دعوت پہنچی، آپ سفر کے لیے تیار ہو گئے۔ بہاولپور سے مفتی صادق صاحب بھی خود انھیں لینے کے لیے دیوبند پہنچ گئے۔ حکیموں نے آپ کو بیماری کے پیش نظر سفر کرنے سے منع کیا۔ لیکن حضرت شاہ صاحبؒ نے فرمایا:

 

’’اگر قیامت کے روز حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال کر لیا کہ میری ختم نبوت کا مقدمہ پیش تھا، تجھے طلب کیا گیا اور تُو نہیں گیا تو میں کیا جواب دوں گا؟ موت تو آنی ہی ہے، اگر اسی راستہ میں آ گئی تو اس سے بہتر اور کیا ہوگا۔‘‘

 

لہٰذا حکیموں کے روکنے کے باوجود آپ تاریخ مقدمہ سے کئی روز پیشتر بہاولپور تشریف لے آئے، اور تقریباً 25 روز بہاولپور میں قیام فرمایا۔ بہاولپور کی جامع مسجد میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا

 

 ’’حضرات! میں نے ڈابھیل جانے کے لیے سامان سفر باندھ لیا  تھا کہ یکایک مولانا غلام محمد گھوٹوی شیخ الجامعہ کا ٹیلی گرام موصول ہوا کہ شہادت دینے کے لیے بہاولپور آئیے۔ ایک مسلمان بچی کے تنسیخ نکاح کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قادیانیت کے ارتداد و کفر کا مسئلہ ہے اور ختم نبوت کے اعتقاد کا مسئلہ ہے۔ ٹیلی گرام پڑھ کر، میں نے پچھلی زندگی کے اعمال پر سوچا کہ اگر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پوچھ لے کہ کون سا عمل لائے ہو، پچھلی زندگی میں کوئی عمل رکھتے ہو تو پیش کرو؟ تو سوچنے کے بعد میرے دماغ میں کوئی ایسا عمل تازہ نہیں ہوا جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر سکوں۔ چنانچہ اس عاجز نے ڈابھیل اور حج کا سفر ملتوی کر دیا اور بہاولپور کا سفر کیا۔ تاکہ قیامت کے دن حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ختم نبوت کے تحفظ کرنے والوں میں شمار کیا جائوں اور سمجھا جائوں اور اس عمل کے صدقے میں میری بخشش ہو جائے۔ دل میں یہ خیال بھی آیا کہ جا تو رہا ہوں حج کے لیے اور آگے سفر کروں گا مدینہ منورہ کا تو اللہ تعالیٰ کی رضا بھی چاہیے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی چاہیے۔ قیامت کے دن اگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم پوچھ لیں کہ ضرورت وہاں تھی، آ یہاں گیا۔ ضرورت تو تیری بہاول پور میں تھی اور تُو یہاں آ گیا تو میرے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں ہوگا۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ختمِ نبوت اور منصب ختمِ نبوت کی حفاظت کے لیے بہاولپور جائوں گا۔ بہت ضعیف اور علیل ہوں۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہمارا نامۂ اعمال تو سیاہ ہے ہی، شاید یہی بات میری نجات کا باعث بن جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وکیل بن کر عدالت میں پیش ہوں۔ ممکن ہے یہ نیکی میرے لیے توشۂ آخرت بن جائے۔‘‘

 

اس پر لوگ دھاڑیں مارتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے… پھر فرمانے لگے:

 

 ’’ہم سے تو گلی کا کتا بھی اچھا ہے۔ ہم اس سے بھی گئے گزرے ہیں۔ وہ اپنی گلی و محلے کا حقِ نمک خوب ادا کرتا ہے جبکہ ہم حق غلامی و امتی ادا نہیں کرتے۔ اگر ہم ناموس پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا تحفظ کریں گے تو قیامت کے دن حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق ٹھہریں گے۔ تحفظ نہ کیا یا نہ کر سکے تو ہم مجرم ہوں گے اور ایک کتے سے بھی بدتر کہلوائیں گے۔‘‘

 

صوفی بزرگ بُلّھے شاہ نے کہا تھا:
 
 
راتیں جاگیں، کریں عبادت
 راتیں جاگن کُتے، تیتھوں اُتّے
 
بھونکنوں بند مُول نہ ہوندے
 جا رڑی تے سُتے، تیتھوں اُتے
 
خصم اپنے دا در نہ چھڈ دے
بھانویں وجن جُتے، تیتھوں اُتے
 
بُلھے شاہ! کوئی رَخت وِہاج لَے
 نئیں تے بازی لے گئے کُتے تیتھوں اُتّے

 

 

جج صاحب جن کا نام محمد اکبر تھا، وہ شاہ صاحب کا بہت احترام کرتا تھا۔ آپ کو عدالت میں کرسی مہیا کی گئی اور حضرت شاہ صاحبؒ کا آخری معرکہ آرا بیان ہوا اور قادیانیوں کی طرف سے ان پر جرح ہوتی رہی اور شاہ صاحبؒ جواب دیتے رہے۔

 

آپ کے مدمقابل قادیانیوں کی طرف سے مشہور مرزائی مبلغ و مناظر جلال الدین شمس تھا۔ آپ نے اس پر خوب جرح کی  مگر وہ کمال ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا رہا اور ہر  بات پر "میں نہ مانوں"  کی رٹ لگاتا رہا۔ اس پر شاہ صاحب نہایت جلال میں آ گئے اور ان پر ایک عجیب و غریب وجد طاری ہو گیا۔ آپ نے مرزائی مبلغ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

 

’’جلال الدین! اگر اب بھی تمھیں مرزا قادیانی کے کفر میں کوئی شک ہے تو آ! میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ میں تمھیں بھری عدالت میں کھڑے کھڑے مرزا قادیانی جہنم میں جلتا ہوا دکھا سکتا ہوں۔‘‘

 

اس پر جلال الدین شمس پر سکتہ طاری ہو گیا اور وہ کچھ نہ بول سکا۔ بعدازاں عدالت سے فراغت کے بعد ایک مرید نے حضرت شاہ صاحب سے پوچھا:

 

حضرت! آج آپ نے عدالت میں بہت بڑی بات کہہ دی۔ اگر مرزائی مبلغ آپ سے مرزا قادیانی کو جہنم میں جلتا ہوا دکھانے کا کہہ دیتا تو آپ کیا کرتے؟ اس پر شاہ :صاحب نے فرمایا

 

’’بالکل دکھا دیتا، کیونکہ مجھے ہزار فیصد یقین کامل ہے کہ جو شخص تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے، اللہ اسے دوسروں کے سامنے کبھی رسوا نہیں کرتا۔ شرط یہ ہے کہ یہ مقدس کام اخلاص و محبت سے کیا جائے۔ تب دنیا و جہان کی تمام کامیابیاں اس کے قدم "چومیں گی۔

 

Link to comment
Share on other sites


شاعر ختم نبوت سید امین گیلانی

 

شاعر ختم نبوت سید امین گیلانی اپنی جیل کا واقعہ بیان کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ :

 

ایک دن جیل کا سپاہی آیا اور مجھ سے کہا کہ آپ کو دفتر میں سپرنٹنڈنٹ صاحب بلا رہے ہیں-میں دفتر میں پہنچا تو دیکھا کہ میری والدہ صاحبہ معہ میری اہلیہ اور بیٹے سلمان گیلانی کے ، جس کی عمر اس وقت سوا ڈیڑھ سال تھی بیٹھے ہوۓ ہیں-والدہ محترمہ مجھے دیکھتے ہی اٹھیں اور سینے لگایا،ماتھا چومنے لگیں-حال احوال پوچھا،،ان کی آواز گلوگیر تھی- سپرنٹنڈنٹ نے محسوس کر لیا کہ وہ رو رہی ہیں-میرا بھی جی بھر آیا،آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے-یہ دیکھ کرسپرنٹنڈنٹ نے کہا،اماں جی ! آپ رو رہی ہیں،بیٹے سے کہیں (ایک فارم بڑھاتے ہوۓ) کہ اس پر دستخط کر دے تو اسے ساتھ لے جائیں،ابھی معافی ہو جاۓ گی-میں ابھی خود کو سنبھال رہا تھا کہ اسے جواب دے سکوں-والدہ صاحبہ تڑپ کر بولیں،کیسے دستخط،کہاں کی معافی،میں ایسے دس بیٹے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر قربان کر دوں-میرا رونا شفقت مادری ہے-یہ سن کر سپرنٹنڈنٹ شرمندہ ہو گیا اور میرا سینہ ٹھنڈا ہوگیا-

 

(تحریک ختم نبوت ۵۳۲/۵۳۳ از مولانا اللہ وسایا)
Link to comment
Share on other sites

ختمِ نُبوّت کا مشن!!ــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

رات کے دو بجے کا وقت ہوا تھا اور شاہ جی عطاء اللہ شاہ بخاری تقریر کرتے ہوئے فرما رہے تھے:

"اے ناظم الدین، میری بات غور سے سُنو! میں تجھے مسلمان کی حیثیت سے نبی کریم ﷺ کا واسطہ دیتا ہوں۔ مجلسِ عمل کے یہ مطالبات مان لو، میں تیری مُرغیوں کو ساری عمر دانہ ڈالوں گا اور تیری جوتیاں اپنی داڑھی سے صاف کروں گا۔"

شاہ جی کے ان الفاظ پر مجمع ہچکیاں لے کر رو رہا تھا اور پھر دُعا کے ساتھ جلسہ کا اختتام ہوا۔

 

( معروف مجاہدِ احرار چودھری غُلام نبی کی کتاب "تحریکِ کشمیر سے تحریکِ ختمِ نُبوّت تک" سے اقتباس )

 

Link to comment
Share on other sites

ختم نبوت کے کام کا بدلہ جنت ہے ۔

 

حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے مرض الموت اپنی چار پائی اٹھوائی
اور دارالعلوم دیوبند کی مسجد کے محراب کے پاس رکھوا کر آخری وصیت ارشاد فرمائی کہ:

تاریخِ اسلام کا میں نے جس قدر مطالعہ کیا ہے اس کی بنیاد پر پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام میں چودہ سو سال کے اندر قادیانیت سے بڑھ کر کوئی فتنہ وجود میں نہیں آیا۔

مسلمانوں! اگر نجاتِ اخروی اور شفاعت محمدی ﷺ چاہتے ہو تو مسلمانوں کے ایمان کو اس فتنۂ ارتداد سے بچاؤ اور اپنی ساری قوتیں اس میں صرف کر ڈالو 
یہ ایک ایسا جہاد ہے جس کا بدلہ جنت ہے میں اس بدلے کا ضامن بنتا ہوں ۔

حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ اپنے حلقہ علمی میں بیٹھ کر فرماتے تھے کہ میں یہ بات علی وجہ البیصرت کہتا ہوں 
کہ حدیث کی خدمت بھی اللہ کا دیں ہے۔ قرآن کی خدمت بھی بہت اہم خدمت ہے۔ فقہ کی خدمت بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ تبلیغ کرنا بھی بہت اہم کام ہے۔ 
لیکن ختمِ نبوت سرکارِ دو عالم ﷺ کی ذات کا تحفظ ہے 
باقی چیزیں اقوال کا تحفظ ہیں، 
اعمال کا تحفظ ہیں، افعال کا تحفظ ہیں، آپ کی سیرت کا تحفظ ہیں، آپ کی صورت کا تحفظ ہیں، آپ کے کردار کا تحفظ ہیں، آپ کی ہدایت کا تحفظ ہیں۔ لیکن ذات کا تحفظ ان سب سے اولیٰ اور افضل ہے ۔۔

( بروایت مولانا محمد مکی حجازی مدرس حرم مکی بیت اللہ کے سائے میں )

ہفتہ روزہ ضرب مومن 
صفحہ نمبر از ❷ تا ❽ ،2007

Link to comment
Share on other sites

  • 3 weeks later...
  • 1 year later...

امام لغت راغب اصفہانی لفظ ’’خاتم‘‘ کی وضاحت کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں :

[وخاتم النبیین۔ لأنہ ختم النبوۃ۔ ای تممھا بمجیۂ]

’’اور خاتم النبیین اس لئے کہا گیا کہ آپ نے نبوت کو ختم کر دیا یعنی اپنی آمدکے ذریعہ اس کی تکمیل فرما دی‘‘

(مفردات القرآن ص۱۴۲، ۱۴۳)

Link to comment
Share on other sites

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ سورۂ مائدہ کی آیت (۳ ) کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں :۔

’’اس امت پر اللہ تعالی کی یہ بڑی نعمت ہے کہ اس نے اس کے لیے دین کو مکمل کر دیا، اب نہ اسے کسی نئے دین کی ضرورت ہے اور نہ کسی نئے نبی کی، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپﷺ کو خاتم الانبیاء بنا دیا اور آپ کو تمام جن وانس کی طرف مبعوث فرمایا‘‘ 

(ابن کثیر ۲ /۱۲)

Link to comment
Share on other sites

جوہری لکھتے ہیں :

’’ختمت الشیء کا مطلب ہے کسی چیز پر مہر لگانا تو وہ شے مختوم ہے، ختمت القرآن، یعنی میں قرآن کے آخر کو پہنچ گیا، اختتمت، یہ افتتحت کی ضد ہے جس کے معنی آغاز کرنے کے ہیں، خاتمۃ الشی ء کا مطلب ہے آخر شے اور محمدﷺ خاتم الانبیاء ؑ ہیں یعنی آخری نبی ہیں ‘‘

(الصحاح للجوہری ج۵ص ۱۹۔ ۸)

Link to comment
Share on other sites

{مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُم وَلٰکِن رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمَا }

علامہ ابن کثیرؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :

’’یہ آیت کریمہ نص ہے اس بارے میں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں، اور جب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو کو ئی رسول بدرجۂ اولی نہیں ہو گا، اس لئے کہ مقام رسالت مقام نبوت سے زیادہ خاص ہے، ہررسول نبی ہوتا ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا ‘‘  

 (ابن کثیر ۳/۴۹۳)

Link to comment
Share on other sites

(٥) علامہ ابن الوزير رحمہ اللہ لکھتے ہیں

"امت کا اجماع ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے اور آپﷺ کی شریعت سے معارضہ کی گنجائش باقی نہیں رہی، اب جو اس قسم کا دعوی کرتا ہے یا شریعت کے کسی جز میں تغیر و تبدل کی بات کرتا ہے، تو وہ بالاجماع کافر ہے۔"

 (ایثار الحق : ٧٢)

بحوالہ :ختم نبوت للشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

Link to comment
Share on other sites

Create an account or sign in to comment

You need to be a member in order to leave a comment

Create an account

Sign up for a new account in our community. It's easy!

Register a new account

Sign in

Already have an account? Sign in here.

Sign In Now
×
×
  • Create New...