Jump to content
IslamicTeachings.org

احادیث مشہورہ کی تحقیق


Bint e Aisha

Recommended Posts

SOURCE: http://hadithqa.blogspot.in/2017/01/blog-post_19.html?m=0

 

 

جوان کی توبہ سے عذاب قبر رفع ہونا

 

ایک پوسٹ نیٹ پر گردش کررہی ہے جس میں ایک یہ بات حدیث بتا کر ذکر کی گئی ہے کہ :

 

"جوان آدمی جب توبہ کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالی مشرق اور مغرب کے درمیان سارے قبر والوں سے عذاب چالیس دن کے لئے ہٹا دیتے ہیں"۔

 

حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے اور نہ ہی حدیث کی کسی کتاب میں مذکور ہے، یہ من گھڑت معلوم ہوتی ہے ، اور اس کو "سنن ابن ماجہ" کی طرف منسوب کرنا بھی بالکل غلط اور جھوٹ ہے ۔

 

اس کے مفہوم میں ایک اور بے اصل حدیث نقل کی جاتی ہے :

 

( ﺇﻥ ﺍﻟﻌﺎﻟﻢَ ﻭﺍﻟﻤُﺘﻌﻠﻢ ﺇﺫﺍ ﻣَﺮّﺍ ﺑﻘﺮﻳﺔ ﻓﺈﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻳﺮﻓﻊُ ﺍﻟﻌﺬﺍﺏَ ﻋﻦ ﻣﻘﺒﺮﺓ ﺗﻠﻚ ﺍﻟﻘﺮﻳﺔ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﻳﻮﻣﺎً ‏) .

 

قال السیوطي في "تخریج أحادیث شرح العقائد" : لا أصل له (كشف الخفاء 672)

 

وأقره عليه الملا علي القاري في کتابه "فرائد القلائد في تخریج أحادیث شرح العقائد" وكذلك في "المصنوع" ص 65۔

 

اس لئے اسے بھی حدیث سمجھنا یا اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا باعث گناہ ہے ۔

 

اس سے بچنا چاھئے ۔

Link to comment
Share on other sites

  • 5 weeks later...

کیا اللہ تعالی نے حضور کے جنازہ کی نماز پڑھی ؟

 
ایک واعظ صاحب نے اپنے وعظ کے دوران یہ روایت بیان کی کہ :
 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ : آپ کے انتقال کے بعد آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم لوگ میری تغسیل وتکفین سے فارغ ہوجاؤ ، تو مجھے چار پائی پر لٹاکر مسجد سے باہر نکل جانا ، اس لئے کہ میری نماز جنازہ سب سے پہلے اللہ تعالی پڑھیں گے ، پھر فرشتے ۔۔۔الخ
 
مجھے یہ دریافت کرنا ہے کہ کیا یہ روایت اس طرح سےصحیح ہے کہ اللہ تعالی نے حضور کی نماز پڑھی؟
 
الجواب :
 
یہ روایت تفسیر حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں تین صحابہ کرام سے منقول ہے :حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم ۔ لیکن ان روایتوں کی اسانید سب شدید الضعف بلکہ موضوع  ومن گھڑت ہیں ، ان میں سے کوئی بھی روایت قابل اعتبار نہیں ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے :
 
۱۔ حضرت جابر بن عبد اللہ وابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کا حال :
 
اس روایت کی تخریج امام طبرانی نے (المعجم الکبیر ۳/۵۸) میں ، اور ان کے واسطےسے امام ابونعیم نے (حلیہ۴/۷۳)میں ،اور امام ابن الجوزی نے(الموضوعات۱/۲۹۵)میں  کی ہے، جس کی اسانیدکا دار ومدار ( عبدالمنعم بن ادریس بن سنان صنعانی عن ابیہ ) ہے ، اور یہ بڑی طویل روایت ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال تجہیز تکفین نماز جنازہ اور تدفین وغیرہ کےطریقہ کی تفصیل ہے ۔
 
لیکن عبد المنعم بن ادریس پر  ائمہ حدیث نے شدیدجرح کی ہے ، اور اس پر روایات گھڑنے کی تہمت صاف لفظوں میں لگائی ہے ، چند جروحات کا ملاحظہ فرمائیں :
 
احمد بن حنبل نے کہا : (کان یکذب علی وھب) : وھب بن منبہ پر جھوٹ بولتا تھا۔
یحیی بن معین نے کہا : (خبیث کذاب) : ناپاک اور جھوٹاہے۔
ابن المدینی اور ابوداود نے کہا : (لیس بثقہ) : اعتماد کرنے کے لائق نہیں ہے ۔
عقيلی نے کہا : (ذاهب الحديث) : اس کی احادیث ساقط الاعتبار ہیں ۔
ابن حبان نے کہا : (يضع الحديث علی ابیہ وعلى غيره) : اپنے والدپر اور دوسروں پر بھی روایتیں گھڑتاہے ۔
دارقطنی نے کہا : (هو وأبوه متروكان) : عبدالمنعم اور اس کا باپ دونوں کی روایات متروک ہیں  ۔
 
اور یہ روایت جن محدثین نے  ذکر کی ہےتو اس کو موضوع قرار دینے کے ساتھ اس کے گھڑنے کی تہمت بھی عبدالمنعم ہی پر لگائی ہے ، جیسے امام ابن الجوزی ذہبی سیوطی وغیرہم ممن اتی بعدہم نےکہا ہے ۔
 
اسی طرح عبدالمنعم کے والد (ادریس بن سنان ) پر جرح کیا ہے ، دارقطنی نے متروک کہا ، اور ابن حبان نے کہا : ( يتقى حديثہ من روایۃ ابنہ عبد المنعم عنہ ) : اس کی روایتوں میں سے اس کے بیٹے عبدالمنعم کے واسطے سے منقول روایتوں سے خاص طور پر اجتناب کیا جائے۔
 
انظر : الضعفاءوالمتروكين لابن الجوزی ۲/۱۵۴،وميزان الاعتدال ۲/۶۶۸،ولسان المیزان۴/۷۳، الضعفاء للدارقطنی ۲/۱۶۳، المجروحین لابن حبان ۲/۱۵۷ ۔
 
بعض علماء حدیث کے اس روایت کے بارے میں اقوال :
 
قال ابن الجوزی : (هذا حديثٌ موضوع مُحالٌ ، كافأ الله من وضعه، وقبَّحَ مَن يَشِينُ الشريعة بمثل هذا التخليط البارد، والكلام الذي لا يليق برسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ولا بالصحابة، والمتَّهمُ به عبد المنعم بن إدريس) الموضوعات۱/۲۹۵۔
وقال الذھبی : ( هذا الحديث موضوع. وأراه من افتراءات عبد المنعم) العلو للعلی الغفار ص۴۳۔
وقال الالبانی : (موضوعٌ.ليس عليه بهاءُ كلام النبوة والرسالة، بل إن يد الصَّنع والوضع عليه ظاهرة) ۔سلسلۃ الأحاديث الضعيفہ ۱۳/۹۹۸ ۔
 
خلاصہ یہ ہے کہ : یہ روایت بلکل ساقط الاعتبار ہے ، کسی درجہ میں بھی قابل قبول نہیں ہے ، اور اس کے الفاظ سے واضح ہوتاہے کہ یہ روایت بنی بنائی من گھڑت ہے، ایک بات اور قابل تنبیہ ہے کہ : اللہ تعالی کے نماز پڑھنے کی جو بات ہے وہ صرف عبدالمنعم بن ادریس والی روایت میں ہی ہے ، جس کے الفاظ طبرانی کی روایت میں اس طرح ہیں  ) :فَإِذَا أَنْتُمْ وَضَعْتُمُونِي عَلَى السَّرِيرِ فَضَعُونِي فِي الْمَسْجِدِ وَاخْرُجُوا عَنِّي، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ فَوْقِ عَرْشِهِ، ثُمَّ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، ثُمَّ مِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، ثُمَّ الْمَلَائِكَةُ زُمَرًا زُمَرًا )۔
 
۲۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کا حال :
 
اس روایت کا دار ومدار اکثر اسانید وطرقِ حدیث میں : عبد الملک بن عبد الرحمن ابن الاصبہانی پرہے ، ابن الاصبہانی سے لےکر سند آخر تک اس طرح ہے : ( عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الْأَصْبَهَانِيِّ، ثنا خَلَّادٌ الصَّفَّارُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ طَلِيقٍ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنْ مُرَّةَ بنِ شَرَاحِيل الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ) ۔ ابن الاصبہانی مجہول راوی ہے ، بلکہ امام فلاس نے اس کو جھوٹا بھی قرار دیا ہے ، جیساکہ ذہبی نے لکھا ہے ۔ اسی طرح اشعث بن طلیق بھی مجہول الحال راوی ہے ۔
 
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت مختلف اسانید سے مذکورہ ذیل کتب حدیث میں وارد ہے :
 
المعجم الاوسط ۴/۲۰۸، کتاب الدعاء برقم۱۲۱۹،مسندبزار برقم۲۰۲۸،مسند احمد بن منیع (المطالب العالیہ۱۷/۵۳۸)،تاریخ طبری ۳/۱۹۱ ، مستدرک حاکم۳/۶۰ ، بیہقی کی دلائل النبوہ ۷/۲۳۱، حلیۃ الاولیاء ۴/۱۶۸ ۔ اور ایک منفرد سند سے ابن سعد نے الطبقات الکبری ۲/۲۵۶ میں بطریق واقدی ذکر کی ہے ۔
 
لیکن ابن مسعود کی روایت میں اللہ تعالی کے نماز پڑھنے کے الفاظ نہیں ہیں ، بلکہ متن حدیث اس طرح ہے : ( فَأَوَّلُ مَنْ يُصَلِّي عَلَيَّ خَلِيلِي وَجَلِيسِي جِبْرِيلُ، ثُمَّ مِيكَائِيلُ، ثُمَّ إِسْرَافِيلُ، ثُمَّ مَلَكُ الْمَوْتِ وَجُنُودُهُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ بِأَجْمَعِهَا...الخ  ) ۔ اس لئے اس حدیث میں زیر بحث مسئلہ کی دلیل نہیں ہے ۔
 
حاصل یہ ہے کہ : 
 
یہ حدیث معتبر نہیں ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی نہیں ہے ، اور نہ اس کے الفاظ میں وہ رونق ہے جو الفاظ نبوت میں ہوتا ہے ، غالب گمان یہ ہے کہ بعض مجاہیل ِ رواۃ نے یہ پوری کہانی تیار کی ہے ، پھر ضعفاء رواۃ نے اس کی تشہیر کی ہے ۔ 

اس لئے اس روایت کو بیان کرنے سے احتیاط کرنا چاہئے ، خصوصا وہ الفاظ جس میں اللہ تعالی کے نماز پڑھنے کا ذکر ہے ۔

Source

 

Edited by Bint e Aisha
Link to comment
Share on other sites

کیا کھانے سے پہلے اور اخیر میں نمکین چیز کھانا سنت ہے؟

 
جواب: کھانے میں نمکین سے ابتدا و اختتام سنت نہیں، جیساکہ بعض کتابوں (شامی،عالمگیری،اور الدر المنتفی وغیرہ میں کھانے کے منجملہ آداب وسنن) میں لکھا ہوا ہے، اسلئے کہ اس بارے میں جتنی احادیث ہیں وہ سب موضوعہ ہیں، لہذااُس کو سنت قرار دینا تسامح (غلطی) ہے۔ (احسن الفتاوی 9/91)
بہرحال یہ سنت تو دور مستحب بھی نہیں ہے، اسلئے کہ کسی بھی حکم کے اثبات کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے خواہ مستحب ہی ہو، اور یہاں کوئی معتبر دلیل نہیں ہے، اور مذکورہ بالا احادیث سے کسی بھی حکم کا ثبوت اصولی اعتبار سے درست نہیں!
لہذا ان دلیلوں سے حجت پکڑنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ روایات ایسی شدید ضعیف ہیں جس سے استحباب ثابت کرنا اصول کے خلاف ہے، بلکہ اسی وجہ ( روات کے مجہول و وضّاع ہونے کی وجہ ‍) سے کئی لوگوں نے اس سلسلے کی احادیث کو موضوع قرار دیا ہے۔
رہی بات بعض اکابرین کی، کہ انہوں نے اپنی کتب وغیرہ میں اِسے سنت یا مستحب لکھا ہے؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ:
اکابر کی تحقیق سر آنکھوں پر، لیکن در حقیقت یہاں تحقیق نہیں ہے، بلکہ ’’عالمگیری‘‘ کے جزئیہ "البدء بالملح والختم بالملح" کی توضیح ہے، حالانکہ دوسرے محقق اکابر نے اس بات کو رد کیا ہے، چنانچہ ملا علی قاری سے لے کر صاحبِ ’’احسن الفتاوی‘‘ تک کتب اٹھا کر دیکھ لیں، ہر ایک میں اسکی نفی ہے۔
دوسری بات: استحباب بھی ایک حکم ہے جس کے ثبوت کے لئے بھی کم از کم ایسی دلیل ہو جس پر زیادہ رد و قدح نہ کیا گیا ہو، اور اس مسئلہ میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، جو صحیح اور صریح ہو، یا رد و قدح سے خالی ہو! لہذا اسے سنت یا مستحب کہنا محلِّ نظر ہے.
 
نوٹ: اس سلسلے میں ایک روایت یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس میں (نمکین سے ابتداء کرنے میں) ستر بیماریوں سے شفاء ہے؟ جیساکہ شامی میں ہے "ومن السنة البداءة بالملح والختم به، بل فیه شفاء من سبعین داء، ولعق القصعة وكذا الأصابع قبل مسحها بالمندیل . وتمامه فی الدر المنتقى والبزازیة وغیرهم"
جواب: یہ روایت سنداً شدید ضعیف ہے، چنانچہ اس روایت کو ابن الجوزیؒ اور ملا علی قاریؒ نے اپنی موضوعات میں موضوع شمار کیا ہے، (ملخصا محمود الفتاوی5/636) ۔
 
فائدہ: ایسے ہی بعض لوگ کہتے ہیں کہ کھانے کے بعد میٹھی چیز کھانا سنت ہے!
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: کھانے کے بعد میٹھے کا حدیث سے کوئی ثبوت نہیں، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا پسند تھا اس لئے اس نیت سے کھائے تو موجبِ اجر ہے، (البتہ کھانے کے بعد کی قید کے ساتھ سنت سمجھنا درست نہیں) (المسائل المہمہ 4/229 ۔ امداد الفتاوی 4/111) ۔
 
خلاصہ یہ ہے کہ :حدیث سے میٹھے یا نمکین کو ثابت سمجھنا درست نہیں، طبی لحاظ سے مفید سمجھے تو عمل کر سکتے ہیں،چنانچہ ’’فتاوی محمودیہ‘‘ میں مفتی صاحب نے کہا ہے کہ: نمک یا میٹھے سے ابتداء کرنے سے مراد یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی محبوب اور پسندیدہ چیز سے کھانے کی ابتداء کرے، تاکہ کھانا رغبت اور اشتھاء کے ساتھ کھاسکے ۔
اور یہی بات زیادہ مناسب اور احوط ہے، جیساکہ فقہی سمینار ۲۴ صفر ۱۴۳۷ھ /مطابق ۷ دسمبر ۲۰۱۵بروز دو شنبہ کی مجلس میں یہی فیصلہ کیا گیا ۔
 
     واللہ اعلم بالصواب                      

مفتی معمور بدر صاحب 

      مظاہری قاسمی اعظم پوری               

 

 

Source

Edited by Bint e Aisha
Link to comment
Share on other sites

  • 4 weeks later...
 

عاشوراء کے دن وسعت علی العیال

 

یوم عاشوراء میں اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت وفراخی کرنے کی بابت جو حدیث بیان کی جاتی ہے ، کیا وہ ثابت ہے ؟

 

الجواب : عاشوراء کے دن وسعت علی العیال والی حدیث : ۵ صحابہکرام رضی اللہ عنھم سے مرفوعا ، اور حضرت عمر سے موقوفا ،  اور ایک تابعی کی روایت سے مرسلامنقول ہے ،جن صحابہ کرام سے مرفوعا وارد ہے ، وہ یہ ہیں :

 

۞ حضرت جابر [شعب الإيمان  3512]

۞ حضرت ابن مسعود [شعب الإيمان  3513]

۞ حضرت ابو سعيد خدری [شعب الإيمان  3514]

۞ حضرت ابو هريرہ [شعب الإيمان  3515]

۞ حضرت ابن عمر  [التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 10،12)] 

۞ حضرت عمر پرموقوف روایت [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 13) ] میں

۞ اور ابن المنتشر تابعی کا بلاغ [شعب الإيمان  3516] میں مروی ہے ۔

 

بعض علماء حدیث اس حدیث کی تمام اسانید وطرق پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: یہ حدیث مرفوعا ثابت نہیں ہے ، اور بعض صراحتا من گھڑت ہونے کا حکم لگاتے ہیں ۔ [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 13) ، مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (6/ 363) ]

 

جبکہ ان کے مقابلہ میں بعض محدثین نے ان کو قبول کیا ہے ، اور بعض اسانید کو صحیح یا حسن کا مرتبہ دیا ہے ،ان میں بالخصوص امام بیھقی ، ابن القطان ، عراقی ، ابو زرعہ بن العراقی  ، ابن حجر عسقلانی ، سیوطی رحمھم اللہ ہیں، ان کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :

 

۱۔ امام بیہقی  : " هَذِهِ الْأَسَانِيدُ وَإِنْ كَانَتْ ضَعِيفَةً  فَهِيَ إِذَا ضُمَّ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ أَخَذَتْ قُوَّةً " [ شعب الإيمان (5/ 333) ]

۲۔  ابن ناصر الدین  : قال العراقي في أماليه : " لحديث أبي هريرة طرقٌ، صحح بعضَها ابن ناصر الحافظ " [ المقاصد الحسنة (ص: 674) ]

۳۔ ابو الفضل عراقی : قال العراقي في أماليه : " لحديث أبي هريرة طرق ، صحح بعضها ابن ناصر الحافظ، وأورده ابن الجوزي في الموضوعات من طريق سليمان بن أبي عبد اللَّه عنه، وقال: سليمان مجهول. وسليمان ذكره ابن حبان في الثقات، فالحديث حسن على رأيه، قال: وله طريق عن جابر على شرط مسلم، أخرجها ابن عبد البر في "الاستذكار" من رواية أبي الزبير عنه ، وهي أصح طرقه ، ورواه هو والدارقطني في "الأفراد" بسند جيد ، عن عمر موقوفا عليه "  [ المقاصد الحسنة (ص: 674) ]

۴۔ ابوزرعہ عراقی  : " هَذَا مَا وَقَعَ لَنَا مِنَ الأَحَادِيثِ الْمَرْفُوعَةِ فِي الْبَابِ، وَأَصَحُّهَا حَدِيثُ جَابِرٍ مِنَ الطَّرِيقِ الأَوَّلِ، وَفِي بَعْضِ طُرُقِهِ الْمُتَقَدِّمَةِ مَا يَصْلُحُ أَنْ يَكُونَ شَاهِدًا لَهُ " [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 12) ] ، وقال عن رواية ابي الزبير عن جابر : " وَأَقَلُّ أَحْوَالِ هَذَا الطَّرِيقِ أَنْ يَكُونَ حَسَنًا ، وَحُكْمُهُ حُكْمُ الصَّحِيحِ فِي الاحْتِجَاجِ بِهِ." [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 2) ]

۵۔   ابن حجر عسقلانی : قال ابن حجر عن رواية أبي سعيد : ولولا الرجل المبهم لكان إسناده جيداً ، لكنه يقوى بالذي قبله ، وله شواهد عن جماعة من الصحابة غير أبي سعيد [ الأمالي المطلقة (ص: 28) ]

۶۔ سیوطی : (حديث) "مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ" قال الدارقطني  : لا يثبت ، إنما هو من كلام محمد بن المنتشر. قلت: كلا بل هو ثابت صحيح [ الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة (ص: 186) ]

۷۔ ابو الفیض احمد الغماری  : حدیث صحیح [ هدية الصغراء بتصحيح حديث التوسعة يوم عاشوراء ص 39 ]

۞   ۞   ۞

 

اور مذاہب اربعہ کی کتابوں میں بھی اس پر عمل کرنے کی گنجائش لکھی ہے ، اور یہ کہ سال بھر کی برکت کے بارے میں یہ عمل مجرب اور پائے ثبوت کو پہنچا ہوائے ہے ۔

 

:حنفیہ کےبعض فتاوی ملاحظہ فرمائیں

 

۞ وسعت علی العیال کی روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے؛ لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے فضائل میں قابل استدلال ہے؛ لیکن اس روایت سے کھچڑے اور حلیم پکانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ کھچڑا آج کل اہل بدعت کا شعار بن چکا ہے اور یہ لوگ روزہ رکھنے کے بجائے دن بھر کھچڑا کھاتے کھلاتے رہتے ہیں، جو منشأ نبوی کے بالکل خلاف ہے، نیز اس میں التزام مالا یلزم کے معنی بھی پائے جاتے ہیں؛ کیوں کہ وسعت پر عمل کھچڑا پکانے پر ہی منحصر نہیں؛ بلکہ کسی بھی طرح دستر خوان وسیع کرنے سے یہ فضیلت حاصل ہوسکتی ہے۔ (کتاب

النوازل ج۱۷ ص ۱۸۸)۔

 

۞ عاشوراء کے روز شام کو وسعت دسترخوان ناجائز نہیں ہے ،بلکہ جائز اور باعث خیرو برکت ہے۔(فتاوی قاسمیہ ج۲ص۴۳۲)۔

 

۞ عاشوراء کے دن اہل وعیال کو اچھا اور خوب کھلانا حدیث و کتب فقہ سے ثابت ہے ، حدیث اگرچہ ضعیف بھی ہو پھر بھی فضائلِ اعمال میں اس پر عمل کرنے میں ثواب ہے ، نیز فقھاء نے بھی اس حدیث کو قابلِ عمل فرمایا ہے۔واللہ اعلم۔(فتاوی دار العلوم زکریا ج۱ص۴۱۹)۔

 

۞ عاشورا کے دن اہل وعیال پر فراوانی کی حدیث صحیح ہے اور اس پر عمل کرنا جائز ہے۔(نجم الفتاوی ج۱ص۲۹۶) ۔

 

 

۞ خلاصہ بحث  ۞

 

وسعت علی العیال کیحدیث کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اوراس پر عمل بھی جائز و مستحسن ہے ۔

رہی بات دیگر رسوم کی جیسے : سرمہ لگانا ، خضاب لگانا ،غسل کرنا ، رشتہ داروں سے ملاقات کرنا ،خاص قسم کا کھانا پکانے کا اہتمام کرنا،تو یہ سب بدعت ہے اور ان باتوں کی کوئی اصل نہیں ہے۔

Link to comment
Share on other sites

 

عاشوراء کے دن کی طرف منسوب انبیاء علیہم السلام کے واقعات کی حقیقت

 

ذخیرہ احادیث میں  ۵حضرات صحابہ کی روایات اس سلسلہ میں ملتی ہے :

 

۱۔ حضرت ابن عباس  ۲۔ حضرت ابوہریرہ  ۳۔ حضرت سعید الشامی  ۴۔ حضرت انس  ۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین ۔

اورتابعین میں سے : 6۔ حضرت قتادہ  ۷۔ حضرت وہب بن منبہ ۸۔حضرت زید العمی   رحمہم اللہ سے مرسل روایات منقول ہیں۔

 

۞ ان روایات میں وقائع دو طرح کے ہیں :

 

۱۔ ایک وہ جن کا تعلق خداکی تخلیق سے ہے ، یعنی اللہ تعالی نے فلانی فلانی چیز عاشوراء کے دن پیدا کی ، جیسے زمین آسمان عرش کرسی لوح وقلم وغیرہ وغیرہ ، ان امور سے ابھی یہاں تعرض نہیں کیا جائے گا ، اگرچہ یہ امور ثابت نہیں ہیں ۔

۲۔دوسرے وہ واقعات جو انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف منسوب ہیں ، وہ مختلف روایات جمع کرنے سے تقریبا  ۱۴  انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب کئے گئےہیں ، بعض انبیاء کی طرف متعدد باتیں منسوب کی گئیں ، جن کی یہ فہرست ہے :

 

۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ، اور اس دن ان کی توبہ قبول ہونا۔

۲۔ حضرت نوح علیہ السلام کی نجات ، اور کشتی کا جودی پہاڑ پر جاکرٹھیرنا۔

۳۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش، اور  آگ سے نجات۔

۴۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دنبہ کے ذریعہ فداء۔

۵۔ حضرت موسی علیہ السلام کی پیدائش ،تورات کا نزول ،بنی اسرائیل کی نجات ، دریا پار کرنا، اور فرعون کا غرق۔

۶۔ حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ سے نکلنا ، اور ان کی قوم کی توبہ قبول ہونا ۔

۷۔ حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالینا۔

۸۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا شفایاب ہونا۔

۹۔ حضرت داود علیہ السلام کی فیصلہ والی غلطی معاف ہونا۔

۱۰۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کاحکومت و سلطنت پر فائز ہونا۔

۱۱۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا قید خانہ سے نکلنا۔

۱۲۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس لوٹنا۔

۱۳۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش، اور آسمان پر اٹھالینا۔

۱۴۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ، اور اگلے پچھلے گناہوں کی مغفرت کی بشارت ۔

 

۞ ان واقعات میں سے پایۂ ثبوت تک پہنچ نے والا صرف حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون سے نجات کا واقعہ ہے ، جو بروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، کتب احادیث میں صحیح سند سے

مروی ہے۔

 

۞  اس کے علاوہ چار واقعات اسانید ضعیفہ سے وارد ہوئے ہیں ، ضعف سند کے ساتھ ان کا کچھ اعتبا ر کرسکتے ہیں ، وہ ہیں :

۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہونا

۲۔  حضرت نوح علیہ السلام کی طوفان سے نجات۔

۳۔ فرعون کے جادوگروں کی توبہ قبول ہونا۔

۴۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ۔

بقیہ جتنے بھی واقعات ہیں جو عاشوراء کی طرف منسوب کئے گئے ، اسی طرح عاشوراء کے فضائل ، وہ سب غیر مستند ، جھوٹے اور من گھڑت ہیں ۔

 

۞ اب اسانید ومرویات کا حال معلوم کرتے ہیں :

 

۱۔ حضرت ابن عباس کی روایت : ان سے مختصر روایت جس میں حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی فرعون سے نجات کا واقعہ جو مروی ہے ، وہ صحیح ہے ۔ دیکھئے : صحیح البخاری رقم(2004) ( 3397) ،مسلم(1130)۔

جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مطول روایت جس میں مختلف انبیاء علیہم السلام کے واقعات مذکور ہیں ، وہ روایت من گھڑت ہے ، اس کی سند میں  حبیب بن ابی حبیب جھوٹا راوی ہے ۔

اس روایت کوبیہقی نے فضائل الاوقات (ص: 430,440)میں ذکر کرنے کے بعد کہا :

هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ بِمَرَّةٍ ،وَأَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ مِنْ عُهْدَتِهِ، وَفِي مَتْنِهِ مَا لَا يَسْتَقِيمُ وَهُوَ مَا رُوِيَ فِيهِ مِنْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرَضِينَ وَالْجِبَالِ كُلِّهَا فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ ،وَاللَّهُ تَعَالَى يَقُولُ: {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} وَمِنَ الْمُحَالِ أَنْ تَكُونَ السَّنَّةُ كُلُّهَا فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ ،فَدَلَّ ذَلک عَلَى ضَعْفِ هَذَا الْخَبَرِ۔

ابن الجوزی نے الموضوعات (2/199)میں کہا : هَذَا حَدِيث مَوْضُوع بِلَا شكّ.

قَالَ أَحْمَد بْن حَنْبَل: كَانَ حَبِيب بْن أَبِي حَبِيب يكذب.وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: كَانَ يَضَعُ الْحَدِيثَ.وَقَالَ أَبُو حَاتِم ابن حِبَّانَ: هَذَا حَدِيثٌ بَاطِلٌ لَا أَصْلَ لَهُ.قَالَ : وَكَانَ حَبِيبٌ مِنْ أَهْلِ مرو يضع الحَدِيث على الثقاة، لَا يَحِلُّ كَتْبُ حَدِيثِهِ إِلا على سَبِيل الْقدح فِيهِ.

وانظر: اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (2/92)،وتنزيه الشريعة (2/149) ،والفوائد المجموعة (ص: 96)۔

 

۲۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت : ان سے مختصر روایت مسند احمد (14/335)وغیرہ میں مروی ہے ، جس کا خلاصہ ہےکہ :

اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچایا تھا، اور فرعون کو غرق فرمایا تھا ،اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر جا کر رکی تھی۔ تو حضرت نوح اور موسیٰ علیہم السلام نے اللہ کا شکراداکرنے کے لئے روزہ رکھا تھا۔

احمد کی سند میں عبد الصمد بن حبيب ضعیف ہے ، اور اس کے والد مجہول الحال ہیں ۔لیکن اخبار کے باب میں اس قسم کا ضعف چل سکتاہے، تو کشتی کا واقعہ قابل قبول ہوسکتاہے ، حضرت قتادہ کی مرسل روایت میں بھی یہ مذکور ہے ۔

البتہ حضرت ابوہریرہ کی طویل روایت تو موضوعات میں شمار کی گئی ، ابن الجوزی نے الموضوعات (2/199)میں ذکر کے کہا :

هَذَا حَدِيث لَا يشك عَاقل فِي وَضعه وَلَقَد أبدع من وَضعه وكشف القناع وَلم يستحيي وأتى فِيهِ المستحيل وَهُوَ قَوْله: وَأول يَوْم خَلَقَ اللَّهُ يَوْم عَاشُورَاءَ، وَهَذَا تغفيل من وَاضعه لِأَنَّهُ إِنَّمَا يُسمى يَوْم عَاشُورَاءَ إِذَا سبقه تِسْعَة.

شوکانی نے الفوائد المجموعہ (ص: 96)میں کہا :

ساقه في "اللآلىء" (2/92) مُطَوَّلا وَفِيهِ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى الله وعلى رسوله ، ما يقشعر لَهُ الْجِلْدُ فَلَعَنَ اللَّهُ الْكَذَّابِينَ ، وهو موضوع بلا شك.

 

۳۔ حضرت سعید شامی کی روایت : یہ روایت کتابوں میں عبد الغفور بن عبد العزیز بن سعیدالواسطی، عن ابیہ عبد العزیز ، عن ابیہ سعید ، کی سند سے منقول ہوتی ہے ، جس سے عثمان بن مطر شیبانی روایت کرتاہے ، عبد الغفور پر وضع حدیث کا حکم لگایا گیا ہے ،اور عثمان بن مطر متروک الروایت ہے، اس لئے اس روایت کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔

عبد الغفور کی روایت طبرانی کی المعجم الكبير (6/69) تفسير طبری (15/355)اور ترتيب الأمالی الخميسیہ (2/127)میں ہے۔

دیکھئے :عبد الغفور کے لئے :میزان الاعتدال (2/641) لسان المیزان (5/229)السلسلہ الضعیفہ (11/691)۔ عثمان بن مطر کے لئے :میزان (3/53)تہذیب الکمال(19/494)۔

 

۴۔ حضرت انس کی روایت : ابویعلی نے مسند(7/133)پرمختصرا روایت کیا ہے ، اس میں بنی اسرائیل کے لئے دریا کا پھٹنا مذکور ہے ، سند میں ضعف ہے لیکن شواہد صحیحہ کی وجہ سے تحسین کے قابل ہے۔

 

۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت فضیلت صوم عاشوراء کے سلسلہ میں ترمذی (741)میں وارد ہے کہ: محرم کے روزے رکھا کرو کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی ،اور اس دن دوسری قوم کی بھی توبہ قبول کرے گا۔

سند عبدالرحمن بن اسحاق واسطی کی وجہ سے ضعیف ہے ۔اس میں ایک قوم کی توبہ قبول ہونے کا مبہم تذکرہ ہے ، بعض شراح اس سے قوم یونس کی توبہ مراد لیتے ہیں [التنوير شرح الجامع الصغير (4/ 246)]اور بعض فرعون کے جادوگروں کی توبہ ، کیونکہ تفسیر کی بعض کتابوں میں (یوم الزینہ ) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے نقل کیا گیا کہ وہ عاشوراء کا دن تھا [تفسير ابن كثير (5/ 289)]۔

 

۶۔ حضرت قتادہ کی مرسل روایت میں صرف حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا جودی پہاڑ پررکنا مذکور ہے [تفسير الطبري (15/ 336)] اس کی تقویت حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ممکن ہے [مسند احمد (14/335)]۔

 

۷۔ حضرت وہب بن منبہ کی روایت طویل ہے ، اور مختلف وقائع اور فضائل عاشوراء پر مشتمل ہے [ترتيب الأمالی الخميسيہ للشجری (1/245)]لیکن سند میں عبد المنعم بن ادریس کذاب ہے [میزان الاعتدال 2/668]۔

 

۸۔ حضرت زید بن الحواری العمی کی مرسل روایت مستدرک حاکم میں (2/638))وارد ہے ، اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی عاشوراء کے دن پیدائش کی بات ہے ۔ذہبی نے تلخیص المستدرک میں کہا : سند واہ۔

 

۞ علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ[الآثار المرفوعہ في الأخبار الموضوعہ (ص: 95)]میں مذکورہ بالا واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 

قلت : الَّذِي ثَبت بالأحاديث الصَّحِيحَة المروية فِي الصِّحَاح السِّتَّة وَغَيرهَا أَن الله تَعَالَى نجى مُوسَى على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام من يَد فِرْعَوْن وَجُنُوده وغرَّق فِرْعَوْن وَمن مَعَه يَوْم عَاشُورَاء .وَمن ثَمَّ كَانَت الْيَهُود يَصُومُونَ يَوْم عَاشُورَاء ويتخذونه عيدا . وَقد صَامَ النَّبِي حِين دخل الْمَدِينَة وَرَأى الْيَهُود يصومونه وَأمر أَصْحَابه بصيامه وَقَالَ نَحن أَحَق بمُوسَى مِنْكُم، وَنهى عَن اتِّخَاذه عيدا وَأمر بِصَوْم يَوْم قبله أَو بعده حذرا من مُوَافقَة الْيَهُود والتشبه بهم فِي إِفْرَاد صَوْم عَاشُورَاء.

 

 وَثَبت بروايات أخر فِي "لطائف المعارف" لِابْنِ رَجَب وَغَيره :أَن الله قبل تَوْبَة آدم على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام . وَثَبت بِرِوَايَة أُخْرَى أَن نوحًا على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام اسْتَوَت سفينته على الجودي يَوْم عَاشُورَاء كَمَا فِي "الدّرّ المنثور" وَغَيره معزوا إِلَى أَحْمد وَأبي الشَّيْخ وَابْن مرْدَوَيْه وَابْن جرير والأصبهاني وَغَيرهم .وَفِي رِوَايَة للأصبهاني فِي كتاب "التَّرْغِيب والترهيب" أَن يَوْم ولادَة عِيسَى يَوْم عَاشُورَاء كَمَا فِي "الدّرّ المنثور" أَيْضا .

 

وَأما هَذِه الْأَحَادِيث الطوَال الَّتِي ذكر فِيهَا كثير من الوقائع الْعَظِيمَة الْمَاضِيَة والمستقبلة أَنَّهَا فِي يَوْم عَاشُورَاء فَلَا أصل لَهَا ،وَإِن ذكرهَا كثير من أَرْبَاب السلوك والتاريخ فِي تواليفهم، وَمِنْهُم الْفَقِيه أَبُو اللَّيْث ذكر فِي" تَنْبِيه الغافلين" حَدِيثا طَويلا فِي ذَلِكَ ،وَكَذَا ذكر فِي "بستانه" فَلَا تغتر بِذكر هَؤُلَاءِ ،فَإِن الْعبْرَة فِي هَذَا الْبَاب لنقد الرِّجَال لَا لمُجَرّد ذكر الرِّجَال .

 

 

رتبه ملخصا المذنب : محمد طلحه بلال أحمد منيار

 

Link to comment
Share on other sites

  • 3 months later...

? حدیث کے مختصر مضامین /47

تبلیغی روایات 1

سوال :تبلیغی جماعت والے اکثر اپنے بیان میں یہ کہتے ہیں "پهلا آسمان دوسرے آسمان کے سامنے ایسا ہے جیسے ایک بڑے میدان میں چهوٹی سی گیند موجود ہو " کیا یہ بات کہنا کہیں سے ثابت ہے؟

الجواب :  حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی طویل روایت جو کتاب ( العظمة 2 / 635) ، كتاب (العرش 58 ) اور (الخلعیات) وغیرہ میں ہے، اس میں یہ وارد ہے :

« مَا السَّمَوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُونَ السَّبْعُ فِي الْكُرْسِيِّ إِلا كَحَلْقَةٍ مُلْقَاةٍ فِي فَلاةٍ مِنَ الأَرْضِ ، وَفَضْلُ الْعَرْشِ عَلَى الْكُرْسِيِّ كَفَضْلِ تِلْكَ الْفَلاةِ عَلَى الْحَلْقَةِ» ۔ 

اس میں تمام آسمانوں کو کرسی کے مقابلہ میں ، اور کرسی کو عرش کے مقابلہ میں گیند کی طرح بتایا گیا ہے ۔

لیکن تفسير طبری (23/ 79) میں مجاہد کا قول منقول ہے :
حدثنا عَبَّاسٌ، عَنْ عَنْبَسَةَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: هَذِهِ الْأَرْضُ إِلَى تِلْكَ مِثْلُ الْفُسْطَاطِ ضَرَبْتَهُ فِي فَلَاةٍ، وَهَذِهِ السَّمَاءُ إِلَى تِلْكَ السَّمَاءِ، مِثْلُ حَلْقَةٍ رَمَيْتَ بِهَا فِي أَرْضٍ فَلَاةٍ .
مجاہد کا قول مرفوع کے حکم میں ہے ۔

اسی طرح ملا علی قاری مرقاة المفاتيح (8/ 3566) میں فرماتے ہیں :

لَكِنْ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ «أَنَّ الْأَرْضَ بِجَنْبِ السَّمَاءِ كَحَلْقَةٍ فِي فَلَاةٍ، وَكَذَا كُلُّ سَمَاءٍ بِالنِّسْبَةِ إِلَى مَا فَوْقَهَا، وَالسَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرَضِينَ عِنْدَ الْكُرْسِيِّ كَحَلْقَةٍ فِي فَلَاةٍ، وَكَذَا هُوَ فِي جَنْبِ الْعَرْشِ» .

خلاصہ یہ ہے کہ : تبلیغ والوں کی یہ بات درست ہے ، اور اس کی اصل روایات میں وارد ہے ۔

بقلم الشیخ محمد طلحه بلال احمد منیار حفظه اللہ
 

Link to comment
Share on other sites

? حدیث کے مختصر مضامین /48

تبلیغی روایات ۲ 

سوال :تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں کہ :

ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : میرے پاس چھے ہزار دینار ہیں ، اور میں ان کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنا چاہتاہوں ، تو کیا مجھے اللہ کی راہ میں نکلنے والوں کے برابر اجر ملے گا ؟ آپ نے ارشاد فرمایاکہ: اللہ کے راستے میں نکل کر جوسو تے ہیں ، ان کے سونے کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ۔کیا یہ بات درست ہے ؟

الجواب :  یہ سنن سعید بن منصور میں وارد ہے :

 2305- حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْبَصْرِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ مَالٌ كَثِيرٌ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ أُدْرِكُ بِهِ عَمَلَ الْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ: «كَمْ مَالُكَ؟» قَالَ: سِتَّةُ آلَافِ دِينَارٍ، فَقَالَ: «لَوْ أَنْفَقْتَهَا فِي طَاعَةِ اللَّهِ لَمْ تَبْلُغْ غُبَارَ شِرَاكِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» وَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ أُدْرِكُ بِهِ عَمَلَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ: «لَوْ قُمْتَ اللَّيْلَ وَصُمْتَ النَّهَارَ لَمْ تَبْلُغْ نَوْمَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» ۔

مگر روایت میں دو اعمال کا مقابلہ مجاہد کی دو باتوں سے کیا گیا ہے :

1)   چھے ہزار دینار کا خرچ کرنا ، مجاہد کی جوتی کے تسمہ پر لگے ہوئے گرد وغبار سے ۔
2)   قیام اللیل وصوم النہار کا ، مجاہد کے سونے سے ۔

اس لئے ضروری ہے کہ بیان کرتے وقت روایت کے مطابق بات کہیں ۔

یہ بھی دھیان میں رہے کہ یہاں مجاہد کا لفظ صراحتا مذکور ہے ، تو اس سے قتال فی سبیل اللہ کرنے والے مراد ہیں ، تبلیغ میں نکلنے والے نہیں۔

بقلم الشیخ محمد طلحه بلال احمد منیار حفظه اللہ
 

Link to comment
Share on other sites

Create an account or sign in to comment

You need to be a member in order to leave a comment

Create an account

Sign up for a new account in our community. It's easy!

Register a new account

Sign in

Already have an account? Sign in here.

Sign In Now
×
×
  • Create New...