Bint e Aisha Posted May 2, 2017 Report Share Posted May 2, 2017 (edited) * Edited May 2, 2017 by Bint e Aisha Link to comment Share on other sites More sharing options...
Bint e Aisha Posted May 2, 2017 Author Report Share Posted May 2, 2017 *یوگا کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے* قسط 2 *♦جسمانی ورزش کی ہیئت پر مشتمل یوگا :* موجودہ صورت حال میں ایک اہم موضوع بن کر ابھر رہا ہے۔ حکومت ہند کی طرف سے پیش قدمی کی بنا پر اس سال یعنی 2015 کے 21 جون کو باضابطہ 'عالمی یوگا دیوس' منعقد کرنے کی مکمل تیاری ہے، اور اب سے دنیا کے ایک سو نوے ممالک میں ہرسال یوگا ڈے منایا جائے گا۔ ہندوستان کے صوبوں، ضلعوں، شہروں، قصبوں، پنچایتوں، بلاکوں اور گاؤں کا ہرفرد بلا افتراق مذہب و ملت ہرسال 'یوگا دیوس' منائے گا۔ یہ اس طور پر منایا جائے گا کہ یوگا ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بدھسٹ، جین، پارسی اور یہود پر مشتمل ہندوستان کی ایک سو پچیس کڑور آبادی کا عمل ہے اور اس ملک کا کلچر ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ملک کے اسکولوں میں یوگا بطور نصاب شامل ہوگا اور ہر طالب علم کو یوگا کرنا ہوگا۔ اسی بنا پر ملک کے کچھ خاص مذہبی حلقوں میں یوگا کے تئیں مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں۔ کبھی یوگا کو مذہب سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے تو کبھی صرف ایک جسمانی ورزش کی حد تک سمجھنے کی صلاح دی جاتی ہے۔ *♦یوگا کی حقیقت:* یوگا سنسکرت لفظ 'یوج' سے نکلا ہے، جس کے معنی شامل ہونے اور متحد ہونے کے ہیں۔ یوگا کے معنی ذہنی گہری سوچ کے ذریعہ وحدت کائنات کے پُر اسرار رازوں تک پہنچنا ہے۔ (اسریٰ نعمانی یوگی تربیت یافتہ ہندوستانی نژاد مسلم صحافی) یوگا کی تقریباً 185 ورزش کی ترکیبیں ہیں۔ یوگا کرنے والے شخص کو یوگی کہا جاتا ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتابوں، ویدوں اور بھگوت گیتا میں یوگا کی تعلیمات ملتی ہیں۔ یوگا کو ہندوؤں کے مذہبی پیشوا، رشی منی، سادھو سنت اپنے مٹھوں میں ہندو مذہبی عقیدہ کے مطابق اپنے چیلوں کے ساتھ بطور فرض کے روزانہ انجام دیتے ہیں۔ بھگوت گیتا کا چھٹا باب فلسفہ یوگا کے لئے خاص ہے، جس میں شری کرشنا نے ارجن کو یوگا کے سلسلہ میں تفصیل سے سمجھایا اور کہا کہ یوگا درد و تکلیف سے چھٹکارا دلاتا ہے اور یوگا کی مشق کرنے والا یوگی روحانیت الٰہی کی نعمت سے نفس کا اطمینان پالیتا ہے۔ ارجن نے شری کرشنا سے پوچھا : ” تم نے یوگا کے متعلق بتایا، روح کے متعلق بتایا؛ لیکن انسان کی عقل ہمیشہ بے چین اور مضطرب رہتی ہے۔ عقل مضبوط، ضدی اور پُر مقصد ہوتی ہے، اس کو ہوا کی طرح خارج نہیں کیا سکتا ہے۔“ کرشنا نے جواب دیا یقیناً عقل مضطرب ہوتی ہے اور اس پر گرفت مشکل ہے، لیکن اس کی تربیت ابھیاسا (Abhyasa) کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور خواہشات اور ورگیا (Vairgya) سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ [لائٹ آف یوگا : صفحہ 20] *♦کچھ خاص ترکیبیں جن سے یوگا پہچانا جاتا ہے :* *1-* آسنا (جسم کی خاص ساخت اختیار کرنا) *2-* دھرنا (کسی خاص چیزپر توجہ مرکوز کرنا) *3-* دھیانا (آنکھیں بند کرکے مراقبہ کرنا) دھیانا کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر روزانہ متعین وقت پر کیا جائے۔ یوگا کے ماہرین بغیر دھیانا کے یوگا تسلیم نہیں کرتے۔ *4-* پرانیاما (روح پر گرفت کرنے کی کوشش کرنا)۔ *5-* سوریہ نمسکار بہت اہم مانا جاتا ہے۔ یوگا کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مشرق کی جانب آنکھیں بند کرکے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر سورج کو پرنام و آداب بجالائے۔ بی کے ایس اینگر نے ویدوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ پرانیاما سے جسم اور عقل کی تمام ناپاک چیزیں خارج ہوجاتی ہیں اور مقدس آگ کے شعلے انھیں توانائی اور رعنائی کے ساتھ پاک کردیتے ہیں، تب ایک شخص دھرانا اور دھیانا کے قابل ہوتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ [لائٹ آف یوگا : صفحہ 461] ((...جاری...)) *What Does Islam Say About Yoga* Part 2 *♦Yoga Based On Physical Exercise :* Is becoming an important topic in the present era. On the basis of anticipation of Indian Rule, there is complete preparation of celebrating "World Yoga Day" on 21 June from the year 2015 and from now Yoga Day will be celebrated in 190 countries every year. Every person from any province, cities, panchayats and villages of India will celebrate Yoga Day without any difference of religion or caste. It will be celebrated like it is a culture of India which is celebrated by 125 crore indians which includes all hindus, muslims, sikhs, christians, buddhists, jains, parsis and jews. Not only this, but it will also be included in the school syllabus and every student will have to perform yoga. On this basis, different concerns of issues have emerged about this topic in some specific religious communities. Sometimes, Yoga is related to religion, or sometimes it has been suggested to consider it a physical exercise. *♦The Reality Of Yoga :* The word Yoga is derived from the Sanskrit root 'Yuj' which means union or communion. Yoga means to discipline the mind and intellect to reach out to those secrets about the universe in its oneness. Yoga consists of 185 terse aphorims. One who follows the path of Yoga is called a yogi. The holy books of hindus, vedas and Bhagwat Gita consists the teachings of Yoga. The followers of hinduism, their preists, and saadhus, along with their disciples, perform this act on a daily basis as an obligatory duty. In the sixth chapter of Bhagwat Gita, which is the most important authority on Yoga philosophy, Sri Krishna explains to Arjuna the meaning of Yoga as a deliverance from contact with pain and sorrow. When the restlessness of the mind, intellect and self is stilled through the practice of Yoga, the yogi, by the grace of the Spirit within himself, finds fulfillment. Arjuna asks Sri Krishna : "You told me about Yoga and Spirit; but a person's mind remains restless and inconsistent. The mind is impetuous and stubborn, strong and wilful, as difficult to hardness as the wind." Sri Krishna replies : "Undoubtedly, the mind is restless and hard to control. But it can be trained by constant practice (Abhyasa) and by freedom from desire (Vairagya). [Light Of Yoga, Page 20] *♦Some Specific Stages that Give the Identity of Yoga* *1-* Asana (Posture) *2-* Dharana (Concentration) *3-* Dhyaana (Meditation). For Dhyaana, it is necessary to sit at a specific place on a fixed time. Yoga experts don't consider Yoga to be valid without Dhyaana. *4-* Pranayama (Rhythmic Control Of The Breath) *5-* Surya Namaskar is highly recommended. It is necessary for the yogi to face towards the east with joining hands and pay respect and express gratitude to the sun. B.K.S. Iyengar has written with reference to vedas that Pranayama helps to empty the senses and body from all it's impure things, and the pure streaks of fire purify them with strength, it is then that the person reaches the stage of Dharana or Dhyana. And a long period of practise is required to reach this level. [Light of Yoga : Page 461] ((...To Be Continued...)) Link to comment Share on other sites More sharing options...
Bint e Aisha Posted May 3, 2017 Author Report Share Posted May 3, 2017 *یوگا کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے* قسط 3 *♦یوگا میں کیے جانے والے ورد :* مشاق یوگی دوران یوگا اور اس کے ختم پر کئی اشلوک کا ورد کرتے اور گاتے ہیں۔ ان میں اہم ترین اشلوک جو سنسکرت میں ہیں ان کا ترجمہ پیش کیا جارہاہے: میں نہ عقل ہوں نہ سوچ، میں نہ سن سکتا ہوں نہ بول سکتا ہوں، نہ سونگھ سکتا ہوں نہ دیکھ سکتا ہوں، میں روشنی اور ہوا میں اپنے آپ کو نہیں پاتا ہوں، نہ زمین پر نہ آسمان پر، میں نعمتوں کی نعمت ہوں، میرا کوئی نام نہیں، میری کوئی زندگی نہیں، میں سانس نہیں لیتا ہوں، نہ کوئی مقدس کلمات ہیں نہ عبادات، نہ علم ہے نہ معلوم، کسی شئی نے مجھے ڈھالا نہیں، میرا کوئی جسمانی خروج نہیں، میں نہ غذا ہوں نہ کھانا اور نہ کبھی میں نے کھایا ہے، میں خیالات اور مسرت ہوں اور آخر میں کرم میں مل جاؤں گا۔ میں غیر مجسم ہوں، میں احساسات میں رہتا ہوں لیکن وہ میرا مسکن نہیں۔ [لائٹ آف یوگا : صفحہ 32 - 33] ⚠ان اشلوکوں میں خودی اور خودی کا انکار، تمام عبادات اور مقدس کلمات کا انکار، علم اور تعلیم کا انکار شامل ہے۔ اس میں اپنے آپ کو نعمت و کرم گردانا جاتا ہے اور آفاقی روح میں مل جانے کا اقرار کیا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں ایمانیات اور اسلامی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں اور خالق و مخلوق کے فرق کو ختم کرتی ہیں۔ اس میں حلول، تجسیم اور انکارِ رب جیسے کفریہ کلام شامل ہیں۔ یوگا کی تعریف، اس کے ارکان اور اس میں کیے جانے والے اعمال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یوگا ایک خالص ہندو مذہب کا حصہ ہے اور اس کی جڑیں ہندو تعلیمات سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندومت کی دھارمک شخصیتیں و مذہبی پیشوا اور ہندو احیاء پسند تحریکات دراصل یوگا کے توسط سے ورن آشرم کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ نسلی طبقاتی تفریق کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ ہندومت کو قومی و عالمی سطح پر ایک عظیم کامیاب نظام زندگی کے طور پر غالب کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مذہب اسلام عقائد، معاملات، مامورات، معمولات اور زندگی کے ہرشعبے میں کلی یا جزوی طور پر کفر و شرک کے عناصر کا باریک بینی سے خاتمہ کرتا ہے اور کسی بھی تہذیب و تمدن کے اجزا کو کفر و شرک سے پاک صاف کرکے اپنے اندر ضم کرنے کی وسعت رکھتا ہے۔ اسلام دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلا اور جہاں بھی پہنچا وہاں کے مقامی معاشرہ، تمام باطل ولغو رسم و رواج، طور طریقوں اور عادات و اطوار کا خاتمہ کرکے مقامی سماج کو اپنے اندر شامل کیا۔ دور حاضر کی آنکھوں کو خیرہ کردینے اور قلب وذہن کو ظاہراً متاثر کردینے والی کسی بھی قدیم و جدید تہذیب کو، جو اسلام سے متصادم ہو، اپنانے اور اس پر عمل کرنے سے منع کرتاہے۔ قرآن کریم نے حرام کاموں کے تدارک کے لیے ابتدائی مراحل میں ہی بندش لگادی اور ڈانٹ کے ذریعہ پابندی عائد کردی۔ اہل ایمان کو کفر و شرک اور لغو و باطل سے بچانے کے لئے اللہ پاک نے مختلف انداز میں تحذیر کے ساتھ تخاطب فرمایا ہے : وَلاتَقرَبُوا : قریب بھی مت ہو! وَاجْتَنِبُوا : اجتناب کرو! اَلَمْ یَان الذِینَ اٰمَنوا : کیا ایمان والوں کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا؟ فَفِرُّوا اِلی اللّٰہ : دوڑو اللہ کی طرف! وَسَارِعُوا اِلٰی مَغفِرةٍ مِنْ رَبِّکُم : دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف! اِنّ ھٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہْ : یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اسی کی اتباع کرو! اللہ تعالی نے دعوت، ترغیب، ترہیب، تنبیہ اور نداء کا ولولہ انگیز مشفقانہ انداز اپنایا، لہو و لعب کی چھوٹی بڑی چیزوں اور بے فائدہ و حرام باتوں کے خاتمہ کا دوٹوک فیصلہ سنایا اور رجوع الی اللہ، توبہ و اصلاح، تقوی و مغفرت کی طرف بلا کسی توقف کے لپکنے اور دوڑنے کی ترغیب دی۔ محسن امت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں سے منع فرمایا : تشبہ بالکفار : کوئی مومن کافر کی مشابہت اختیار نہ کرے- تشبہ بالنساء : کوئی مرد کسی عورت کی مشابہت اختیار نہ کرے- تشبہ بالرجال : کوئی عورت کسی مرد کی مشابہت اختیار نہ کرے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ ایک عورت کو دیکھا جس کی چادر میں صلیب کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے، دیکھتے ہی ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کپڑوں کو دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے۔ [مسند احمد] قرآن کریم میں اللہ پاک کی ترغیب و ترہیب، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور صحابہ کرام کا عمل اس بات کی طرف مشیر ہے کہ کفار کے طور طریقے، رسم و رواج، مخصوص مذہبی اسٹائل و انداز کی تقلید کرنا اور کفر سے بھری اصل نوعیت کو بغیر زائل کیے کسی کی پیروی کرنا کفار کی مشابہت اختیار کرنا ہے، جس کی اسلام میں ممانعت ہے۔ ((...جاری...)) *What Does Islam Say About Yoga* Part 3 ♦The practitioners of Yoga chant and sing various ashlok (Sanskrit Chants) in between and at the end of Yoga. The most important ashlok amongst them which is in Sanskrit, is being translated below : I'm neither mind nor thought, I can neither hear nor speak, I can neither smell nor see, I do not find myself in light and air, neither on land nor in the sky, I am a blessing of the blessings, I have no name, I have no life, I don't breathe. There are no holy scriptures nor worship. There is no knowledge and nor do I have knowledge. Nothing has casted me, nor do I have any exclusions from my body. I am no food nor meal and never have I eaten. I am an array of thoughts and happiness, and in the end I will unite with karma. I have non incarnate, I live in emotions, but that is not my dwelling place. [Light Of Yoga : Page 32 - 33] ⚠These ashloks include the self and refusal of self, denial of all worship and holy scriptures, knowledge and education. One considers himself a blessing and benevolence and admits to unite with the universal soul. All these things collide with Imaan and Islamic teachings and ends up erasing the difference between the creator and the creation. This includes statements of kufr such as embodiment, and denial of the Lord. The definition of Yoga, it's stages and it's postures, makes this fact clear that Yoga is exclusively a part of Hinduism and it's roots are linked with the teachings of the Hindu religion. This is the reason why the religious figures and leaders of Hinduism are wanting to establish the Varan Ashrams once again, through these hinduist movements. And they want to foster differences amongst our generations and communities. They are in an attempt to make Hinduism prevail on a national and global level, as being the successful way of leading life. The religion of Islam, closely finishes off any bit of kufr and shirk partly or wholely, in the beliefs, commands, duties, relations and every aspect of life. And is also capable of integrating in wiping away any of the parts of kufr and shirk in culture and civilization. Islam has spread out in various regions of the world, and wherever it reached, it put an end to their regional culture, all the wrong practices and norms and habits,and inculcated the regional area within itself. Islam also prohibits from following or adopting any such old or new religions, which are only a means of appeal to the eyes, and outwardly attractive in the present era, and which are in conflict with Islam. Qura'an has constrained and restricted from prohibited acts right in the beginning stages itself. To stop the believers from kufr, polytheism, unnecessary and void acts, Allah Ta'ala has warningly addressed the believers in various styles : Don't even approach! Refrain! Has not the time arrived for the believers? Approach your Lord! Run towards the forgiveness of your Lord! This is my straight path. Hence, follow it! Allah Ta'ala has adopted an expressive and loving way of calling out to, persuading, warning and addressing. He also called out his verdict clearly of putting an end to the useless, non beneficial and forbidden things. And has also encouraged us to come towards Him, run towards Him, repent and rectify without any delay. The Prophet Sallallahu Alaihi Wasallam has prohibited from three things : No believer should imitate (be alike) a non-believer. No man should imitate a woman. No woman should resemble(emulate) a man. Once, Hazrat Ayesha Razi Allahu Anha witnessed a woman who had adorned a cloth which had impressions of the cross. She scolded her as soon as she saw and commanded to remove it, and said that if Prophet Sallallahu Alaihi Wasallam would have seen it, he would have torn the cloth. [Musnad-e-Ahmad] The persuasion and warning of Qura'an, narrations of the Prophet Sallallahu Alaihi Wasallam and the acts of Sahaaba indicate that adopting the ways of non-believers, following their custom and religious styles, and emulating someone without wiping away the kufr filled original nature, is imitating the disbelievers, which is prohibited in Islam. By: MUFTI HUZAIFA PALANPURI DB ((...To Be Continued...)) Link to comment Share on other sites More sharing options...
Bint e Aisha Posted May 3, 2017 Author Report Share Posted May 3, 2017 *یوگا کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے* قسط 4 مسلم معاشرہ کے باشعور تعلیم یافتہ، دین دار اور اسلام پسند لوگوں کے درمیان آج یوگا موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ کچھ نام نہاد مسلم رہنما اسے محض ایک ورزش کا نام دے رہے ہیں۔ بعض حضرات اسے مکمل طور پر شریعت کے خلاف گردان رہے ہیں اور کچھ لوگ یوگا میں استعمال ہونے والے کفریہ وشرکیہ کلمات کو مستثنیٰ کرکے جواز کے قائل ہیں۔ بعض تعلیم یافتہ مسلمان یہ سوال کرتے ہیں کہ یوگا صحت کے لئے مفید ہے تو پھر اسلامی حلقوں سے اس کی ممانعت کے سلسلہ میں کیوں آوازیں آرہی ہیں؟ کیا اسلام اتنا تنگ نظر ہے کہ اپنے پیروکار کو جسمانی ورزش سے منع کرکے ان پر تحدیدات عائد کرتا ہے؟ اور بعض گوشوں سے تو یوگا کے متعلق فتووں پر تنقیدیں بھی جاری ہیں۔ واضح رہے کہ ملیشیا کے مفتیان کرام نے یوگا کے خلاف فتوی جاری کرکے وہاں مسلمانوں پر روک لگادی ہے، اور فتوی نافذ العمل بھی ہے، تاہم چند سیاسی لوگوں نے مخالفت کی ہے۔ یوگا کی ہیئت کذائیہ یعنی ورزش کے معمولات ڈنڈ بیٹھک کی حد تک اس کی اصل سے علیحدہ کرکے شریعت کا حکم اگر معلوم کیا جائے، تو ظاہر سی بات ہے کوئی بھی مفتی و عالم یقیناً ورزش کے زمرہ کی حد تک اسے جائز قرار دے گا، لیکن صرف ورزش کی حد تک فنی بنیادوں پر حاصل شدہ اجازت نامہ کی وجہ سے یوگا میں بے شمار مخفی، مشتبہ، مشکوک باتوں اور کفریہ و شرکیہ واضح دلائل کی موجودگی میں یوگا کی ممانعت کا حکم بھی ناقص اور مہمل نہیں سمجھا جائے گا۔ یوگا کی وکالت کرنے والوں کا استدلال یہ ہے کہ ہندو عقائد کی نفی اور اشلوک کے ورد کو چھوڑ کر صرف جسمانی ورزش ممنوع نہیں ہے، کیونکہ اسلام علاقائی اور بیرونی مفید کارآمد باتوں کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہوسکتا ہے لوگوں کی نیک نیتی کے پیش نظر یوگا کو جائز قرار دینے والوں نے یہ فیصلہ کیا ہو، لیکن یہ خیال رہے کہ کسی پیچیدہ مسئلہ کو کاٹ چھانٹ کر اس کے ٹکڑے اور ذرے ذرے کرکے ایک ہلکے عنصر کو لے کر جواز کا حکم صادر کرنا دور بینی سے الگ نجی فیصلہ قرار پائے گا۔ ٹھیک ہے کہ یوگا ورزش کی حد تک جائز ہے؛ تاہم یہ *مُفْضِی اِلی الْکُفْرِ وَ الشِّرْکِ* (کفر و شرک کی طرف لے جانے والا) بھی ہے۔ دھیرے دھیرے یہی عمل یوگا سے الفت پیدا کردے گا، لوگ یوگا کے سارے ارکان سے دلچسپی لینا شروع کردیں گے، یوگیوں کے مٹھوں اور کیندروں میں جاکر یوگا کے ذریعہ سارے کفریہ اعمال انجام دیں گے، یہاں تک کہ آنے والی نسل جب مسلمانوں میں رائج یوگا کو پائے گی تو انھیں اس وقت یوگا ایک اسلامی کلچر کی شکل میں نظر آئے گا اور اس کے قبیح و مذموم ہونے کی طرف اس کی توجہ بھی نہیں جائے گی۔ غرض مسلم معاشرہ کا ایمان کفر و شرک کی پیروی میں تبدیل ہوجائے گا لیکن انھیں اس کا احساس بھی نہ ہوگا۔ اس وقت نہ کوئی داعی، عالم اور مصلح کی بات اثر کرے گی اور نہ خود کا ضمیر ملامت کرے گا۔ قلب و ذہن پر کفر کے دبیز پردے پڑجائیں گے۔ زہر چاہے تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ لیا جاتا رہے، وہ اپنا اثر ضرور دکھائے گا اور جسم میں خاموشی سے سرایت کرتے ہوئے موت کے منہ میں دھکیل دے گا۔ یہی معاملہ ایمان و کفر کا ہے۔ لاعلمی اور انجانے میں ایک مومن اگر کفر کی چند یا بعض باتوں کو قبول کرتے کرتے ردِکفر کے جذبہ کو کھو بیٹھے اور ایمان وکفر کے فرق کو اپنی فکر و نظر سے اوجھل کردے تو پھر ایمان پر کفر پوری طرح حاوی ہوجاتا ہے، جس کے نتیجہ میں مومن کو ہر کافرانہ دعوت و عمل جاذب نظر آنے لگتے ہیں- ((...جاری...)) *What Does Islam Say About Yoga* Part 4 Today, Yoga has become a topic of discussion amongst the wise, educated, religious, Islamists of the muslim society. Some famous muslim leaders have termed it as merely an exercise. Some state it to be completely against the shariah while some consider it to be permissible after the exclusion of the non-islamic sayings from it. Some educated muslim protest that when Yoga is beneficial for health, then what is the reason behind it's prohibition? Is Islam so narrow sighted that it is prohibiting it's people from physical exercise and setting limitations for them. Also, there is continuous criticism against the fatwa given on Yoga from various corners of the world. It should be noted that the scholars (muftis) of Malaysia have given fatwa against Yoga and prohibited the Malaysian muslims from it, and it has been acted upon too. However, some political people have opposed it. If the command of the shariah is learnt, after limiting Yoga only till it's exercise form and excluding the roots of yoga, then it is evident that any scholar or mufti will declare it as permissible only on the basis of it being merely a form of exercise. But just on the basis of such practical methods and it's permissiblity gained for being merely an exercise, the prohibition of Yoga also cannot be denied, when there are clear evidences in topics of doubt and suspect present in Yoga. Those who are in favor of Yoga, provide the evidence that, if Hinduism is denied and the chants of ashlok is excluded from Yoga, then only the physical exercise isn't prohibited, because Islam is capable of integrating regional and global beneficial things within itself. It may be possible that they declared it permissible keeping in mind this good intention of people. But keep this in mind that, investigating a complex matter and breaking it down into bits and pieces, while only considering a feeble component from it and making it permissible, will only end up in being a different private issue due to farsightedness. Accepted that Yoga is permissible till the limit of physical exercise. However, it encourages kufr and polytheism. Gradually, affinity towards Yoga will start inculcating and people will take interest in all the steps of Yoga. They'll join the groups of Yogis and perform all the non-islamic acts. Then, when the next generation will witness Yoga in muslims, they'll assume it to be an Islamic culture and won't even think of it being detested. Hence, the belief of muslim society will change into the following of kufr and polytheism, and they will not even realize about this. Then no advise from the scholars or daees will be accepted, nor will the self feel regret. The mind and heart will be engulfed with kufr. Even though poison may be consumed in small amounts, it will surely leave its effect, and will secrelty start incorporating in the body, thereby pushing them into the hallows of death. This is the matter of belief and disbelief. If a believer, being ignorant and naive, starts to accept some or few facts about kufr, and begins to lose the spirit for denial of kufr, and loses his sight to differentiate between imaan and kufr, then kufr completely dominates the imaan, as a result of which every act or call of disbelief seems appealing to the believer. By: MUFTI HUZAIFA PALANPURI DB ((...To be continued...)) Link to comment Share on other sites More sharing options...
Bint e Aisha Posted May 4, 2017 Author Report Share Posted May 4, 2017 *یوگا کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے* قسط 5 مغلیہ سلطنت کے زوال کے دور میں ملک میں افراتفری اور بد امنی پھیلنا شروع ہوگئی تھی۔ ہندو مسلم اہل علم و مذہبی پیشواؤں کا آپس میں رابطہ مضبوط ہوچکا تھا۔ اکبر بادشاہ نے ہندومت اور اسلام و دیگر مذاہب کو ملاکر ایک نیا مذہب ”دین الٰہی“ کے نام سے بنایا۔ درباری چمچے، شاہی امام اور پنڈتوں نے مل کر اسلامی مذہبی تعلمات کی بنیادوں کو ڈھانے کی کوشش کی اور کئی کافرانہ رسم و رواج حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں کے درمیان پروان چڑھائے گئے۔ مولوی اور عامل حضرات سحر، جادو، بھوت پریت اور جنات کے اثرات کو زائل کرنے اور مصیبت زدہ کی آفتوں کو دور کرنے کے لیے ذکر ودعا اور شرعی تعویذوں سے کام لیا کرتے تھے، لیکن اس وقت کے بعض عاملوں کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی کہ صرف پرانے طریقوں پر قرآنی آیات اور دعا وذکر سے عوام کے باطنی امراض ومصائب کا حل فوراً نہیں ہوسکتا، بلکہ سنسکرت کے اشلوکوں، ہندوؤں کے مقدس طور طریقوں اور پوجاپاٹ کے ذریعہ اس کا حل ممکن ہے۔ اس وقت اسماعیل نامی ایک مسلم شخص اس کام کے لیے تھا۔ اس نے آچاریوں، رشیوں اور سادھووٴں سے جادو، ٹونا، بھانامتی اور ہندو عملیات کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ وہ اسے سیکھ کر باطل شیطانی کافرانہ سفلی عملیات کا ماہر ہوگیا اور اشلوکوں کو قرآنی آیات سے ملا کر خلط ملط کرکے ایک نیا سفلی علم تیار کیا۔ اس کے عملیات کی شہرت ہونے سے وہ اسماعیل یوگی کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس سے دوسرے مولویوں نے بھی سفلی عمل کو سیکھا اور اس طرح ملت اسلامیہ ہند میں سفلی عمل کا سلسلہ چل پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج دینی تعلیم سے دور مسلمانوں نے دین اور بے دینی میں فرق کو بھلادیا، دیوالی، ناگ پنچھی، اماوس کے موقعوں پر بعض جاہل مسلم خواتین کی بڑی تعداد مندروں کے قریب نظر آتی ہے۔ ہندو تیوہاروں میں مانگ پر ٹیکہ لگانا، کلائی پر بدھی باندھنا، مزاروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہاتھ کے اشارہ سے چومنا، گاڑیوں میں کعبة اللہ، مسجد نبوی یاکسی مزار کی تصویر لٹکا کر اس پر پھول کی مالا چڑھانا بھی اسی غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ سادہ لوح مسلمان اس حد تک کیسے پہنچے، اس کا محرک کیا تھا؟ یوگا کا معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح ہے۔ محض صحت و تندرستی کی خاطر ایک ایسا عمل اور طریقہ کار جس کی جڑیں کفر و شرک سے ملتی ہیں، صرف نیک نیتی کی بنیاد پر اسے مباح قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ایک مومن کفر کی باریکیوں کو سمجھنے میں غلطی کرکے چند فائدوں کی خاطر قلب وذہن کو بند کرکے دھوکہ کھا جائے تو اللہ پاک نے ایسے موقع پر ایمان والوں کو وارننگ دی ہے۔ فرمایا : *لَوْتَکْفُرُونَ کَما کَفَرْتُمْ فَتَکُوْنُونَ سَوَاء* *ترجمہ :* اگر تم کفر کروگے جیسے انھوں نے کیا تو تم بھی ان جیسے ہوجاؤ گے۔ [سورۃ النساء] ((...جاری...)) *What Does Islam Say About Yoga* Part 5 At the time when Mughal Sultanate started to decline, there was choas and restlessness in the country. The bond between Hindu and Muslim scholars and leaders had become strong at that time. King Akbar had combined Hinduism, Islam and other religions to form a new religion named 'Deen-e-Ilahi'. The flattering courtiers, royal leaders and pandits tried to destroy the fundamentals of Islam and many customs based on Hinduism started to foster in muslims under the supervision of the government. The scholars of that time used to recite specific duas, taaweez and do zikr to put an end to evil and magical things and difficulties of people, but then it was sowed in the minds of scholars that only dua and taweez practiced on the ancient style alone cannot immediately help in putting end to these evil and magical things. Instead, internal ailments can be cured through the Sanskrit ashloks, hindu customs and worshipping ways. At that time, a Muslim man named Ismail was responsible for such works. He learned and practised witchcraft and hinduist activities from the sadhus and hindu priests. After learning about it, he became a skilled specialist in the operations of wrongdoing and disbelief. He then started to mix up the ashloks and verses of the Qur'an and prepared a new form of knowledge. After his work grew popular, he became famous by the name 'Ismail Yogi'. Then other maulvis too started to learn this new field of knowledge, thus introducing a new form of knowledge in the Islamic nation in India. It resulted in negligence of difference between religious and non religious acts by the muslims who aren't aware of Islam. Some ignorant muslim women in large numbers, are witnessed near the temples, on the occassions of Diwali, Naag Panchi and Amaawas. During the hindu festivals, applying teeka on the forehead, tying their religious thread on the wrist, while passing by a shrine, gesturing by the hand and kissing, keeping pictures of the Ka'aba, Masjid-e-Nabwi or any shrine, and decorating it with garlands, is the result of this very ignorance. How did these muslims reach upto such an extent? What caused it? The same case is of Yoga. Adopting an act or custom, the roots of which meet kufr and polytheism, just for the sake of health and on the basis of good intention of people cannot be considered to be permissible. If a believer gets mistaken in understanding the complex nature of kufr for the sake of some benefits, then Allah Ta'ala has warned the believers in such situations that : *لَوْ تَکْفُرُونَ کَما کَفَرْتُمْ فَتَکُوْنُونَ سَوَاء* *Translation :* If you imitate them in kufr, you'll become like them. [sura-e-Nisaa] By: MUFTI HUZAIFA PALANPURI DB ((...To Be Continued...)) Link to comment Share on other sites More sharing options...
Bint e Aisha Posted May 4, 2017 Author Report Share Posted May 4, 2017 *یوگا کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے* قسط 6 فقہ اسلامی کے چند اہم اصولوں کو سامنے رکھ کر اگر استنباط کیا جائے تو یوگا کی ممانعت اور عدم ممانعت کی باتیں سمجھنے میں آسانی ہوگی : *♦1- مبادیات کی تحقیق :* یوگا کے مبادیات کی تحقیق کریں تو اس کی دو بنیادی باتیں راست کفر اور ہندو مذہب سے جا ملتے ہیں۔ ایک اس کا مقصد گیتا کی تعلیم ہے۔ دوسرے یوگا پر رشیوں اور آچاریوں کا مکمل کنٹرول ہے، بطور عبادت اس کی مشق کی جاتی ہے۔ اسی طرح یوگا کے اشلوکوں میں توحید، رسالت، کتاب اللہ اور یوم آخرت کا انکار ہے۔ مخلوق کا خالق میں حلول کرجانے کا عقیدہ ہے۔ کفار کے ساتھ مشابہت ہے۔ غرض اس تخریج مناط کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یوگا ہندو تہذیب کے عقائد کا اہم حصہ ہے۔ *♦2- سد باب :* شریعت ہر دو زاویوں سے مسئلہ کا تجزیہ کرتی ہے : *1-* اگر کسی امر کے سلسلہ میں اس کے سد باب سے کفر، شرک، برائی اور لادینیت کا خاتمہ ہوسکتا ہے تو سب سے پہلے ان ذرائع کے باب الداخلہ کو بند کیا جائے گا، تاکہ بندہ مومن کسی نافرمانی اور خلاف شرع امور میں مبتلا نہ ہوجائے۔ *2-* اور اگر کسی مسئلہ میں ایسے ذرائع کے دروازے کھول دیے جائیں، جن سے توحید، حق، خیر، ثواب، نیکی، و تقویٰ کو قوت ملے اور کفر، شرک و برائی کے پیدا ہونے کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے اور لوگ انفرادی و اجتماعی طور پر مستفید ہوسکیں، تو ان ذرائع کے دروازے کھول دینے چاہیے۔ *♦3- اصل کے اعتبار سے جائز ہونا :* کھیل اور تندرستی کے لیے ورزش و کسرت اصل کے اعتبار سے جائز اور مباح ہے- جب تک کہ کوئی منکر، شر اور گناہ کی چیز اس میں شامل نہ ہو اور کوئی دلیل ِحرمت اس میں نہ پائی جائے، مباح رہے گا۔ *♦4 گناہ وجرم سے مُبرّا ہونا :* ایسے تمام افعال جس کے ظاہر و باطن میں کوئی ممنوع اور خلاف شرع بات نہ ہو اور اس کے کرنے سے کسی گناہ، شر اور منکر کے پیدا ہونے اور پھیلنے کاشبہ نہ ہو، فقہ میں ایسے اعمال کو گناہ سے مبرا قرار دیا جاتا ہے، جسے فقہ کی اصطلاح میں (اِرْتِفَاعُ الْمَسْئُولِیَةِ الْجِنَائِیَةِ) کہتے ہیں۔ عام کھیل کود، ورزشیں اور کراٹے اسی زمرے میں آتے ہیں۔ مذکورہ بالا فقہ کے ان اصولوں کی روشنی میں یوگا کے مبادیات کفر و شرک سے ملتے ہیں۔ گناہ وشر سے مبرا بھی نہیں ہے۔ یوگا کے نصوص بھگوت گیتا سے ملتے ہیں۔ یوگا کے ذرائع کے دروازے کو کھول دینے سے اعتقادی کمزوریاں اور ایمانیات پر برے اثرات پیدا ہوں گے۔ تو صرف اصل کے اعتبار سے یوگا کی ورزش والی کیفیت پر نظر رکھتے ہوئے اسے مباح اور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، بلکہ سد بابِ ذرائع کے پیش نظر یوگا کو بالکلیہ ممنوع اور مسلمانوں کے لیے ناجائز قرار دیا جائے گا۔ جو لوگ یوگا کے عدم ممانعت کے قائل ہیں ان کے پیش نظر یہی بات ہے کہ یوگا اصلاً ورزش ہے، لہٰذا محرمات سے گریز کرتے ہوئے یوگا کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے لیے ہم کہنا چاہیں گے کہ کسی حکم میں حلت، حریت اور توسیع کی توجیہات اس کے دائرے میں ہونی چاہیے، من مانی توجیہات قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس کو دومثالوں سے سمجھنا آسان ہوگا۔ اسلام میں نکاح کے لیے کوئی موقع اور محل کی قید نہیں ہے۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر اگر ایک شخص بت کدہ، مندر یا ہندو و عیسائی دھارمک استھانوں میں اسلامی اصولوں کی سخت پابندی کے ساتھ نکاح کرتا ہے تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں، لیکن اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان اس مکروہ طرز عمل کو اپنالیں اور معاشرہ کا حصہ بنالیں تو کیا اب بھی یہ مباح عمل گردانا جائے گا؟ اسی طرح اگر کوئی مسلمان اللہ کا ذکر، مناجات اور تسبیحات کے لیے ایسی جگہ منتخب کرے جو مرکزِ کفر وشرک ہو یا اس کا ایک حصہ ہو جیسے مندر، آشرم اور مٹھ وغیرہ، جیسا کہ آج کل کے آشرم اور مٹھ بڑے خوبصورت، کشادہ اور آرام دہ ہوا کرتے ہیں۔ روحانیت کے متلاشی مختلف لوگ یہاں تپسیا وغیرہ کرتے ہیں، تو کیا مسلمان کا روحانی ارتقاء کے لیے مسجدوں کو چھوڑ کر مٹھوں، آشرموں اور کیندروں میں بیٹھ کر مراقبہ کرنا، تسبیحات اور مناجات کرنا جائز ہوگا؟ ان دونوں مثالوں کے لیے جو جواب ہوگا وہی یوگا کے بارے میں بھی ہوگا۔ اسلام کی روح اور مزاج کی حفاظت دور حاضر کا اہم تقاضہ ہے۔ محض جسمانی ورزش اور بیماریوں کے علاج کے نام پر یوگا کی پریکٹس کو اپنا کر اسلامی روح کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ سائنس کے مطابق اسلام کی عبادتیں خود اس طرح کی ہیں کہ ہر مومن لازمی طور پر روزانہ مراقبہ، اطمینانِ قلب اور ورزش سے مستفید ہوتا ہے۔ پانچ وقت کی نماز، روزے، حج و عمرہ اور اعتکاف میں بندہ اللہ سے لو لگاتا ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر دن فرض، سنت اور نفل نمازوں میں قیام، رکوع، سجدے اور قعدہ سے باضابطہ ورزش اور مراقبہ کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ تلاوت کلام پاک، ذکر و تسبیحات، محاسبہ نفس، توبہ و استغفار اور رجوع الیٰ اللہ سے بندے کو جسمانی و روحانی قوت مل جاتی ہے۔ جس مسلمان کے دل میں ایمانی حرارت ہوتی ہے وہ کفر کرنا تو دور کی بات، کفر کے تصور سے بھی کانپ جاتے ہیں۔ وہ ایسے موحد ہوتے ہیں کہ توحید پرستی ان کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ کفر و شرک اور نفاق جیسے گناہ انھیں چھو بھی نہیں سکتے۔ وہ شیطان کی چال بازیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ پختہ عقیدہ توحید اور اعلی اسلامی کردار و خشیت الٰہی کے ذریعہ اپنے نفس کو مطمئن رکھتے ہیں۔ یہی وہ اسلامی اسپرٹ اور روح ہے جو ہمیں اللہ کا محبوب بندہ بناکر دنیا و آخرت میں سر بلند کرتی ہے۔ ((...ختم شد...)) *What Does Islam Say About Yoga* Part 6 In the light of some specific rules of fiqah (jurisprudence), if we derive the commandments of the permissibility and prohibition of Yoga, then it will be easier to understand. *♦1- Inquiry Of The Fundamentals :* If we inquire about the fundamentals of Yoga, it results in ending up with two basic things, whose roots meet Hinduism. Of which the first is seeking knowledge of Geeta, and the second is that the hindu sadhus and priest have complete control over Yoga, it is practiced as a form of worship. Similarly, there is denial of tauheed (oneness), prophet hood, the book of Allah and the day of resurrection in the Yoga ashloks. Further, it consists of the belief of embodiment and there is resemblance of the non believers in it. Hence after this conclusion, it becomes clear that Yoga is an important part of the Hindu beliefs. *♦2-* *Putting An End To It :* The shariah analyses the issues from each of the two aspects : *1-* If from the closure (ending) of an act, it's kufr, polytheism, viciousness and the act being non religious can be ended, then firstly the initial stage of the act should be ended, so that the believer refrains from disobedience and the acts which are against the shariah. *2-* If in an act, those causes are fostered through which the belief of oneness, reward, goodness and piety are nourished and no chances of kufr, polytheism and evil remain and people are benefited individually and socially, then such causes shoud be fostered. *♦3- To Be Permissible On The Basis Of Its Origin :* Exercise is permissible on the basis of its origin for health and play. Till the time it remains free from sinful and forbidden acts, it will be permissible. *♦4- To Be Free From Sins :* All those acts which are internally and externally free from non permissible acts and those acts which are against the shariah and those acts don't become a cause of sin, then such acts will be termed as free from sins in fiqah. Which in terms of fiqah is said to be _اِرْتِفَاعُ الَمسْئُولِیَةِ الجِنَائِيَة_ Common games, exercise and karate fall under this category. In the light of the above mentioned rules of fiqah, the fundamentals of Yoga meet the roots of kufr and polytheism. It is not free from evil and sins. The context of Yoga is an extraction of Bhagwat Geeta. There will be a negative impact on Imaan by Yoga and it will weaken the religious beliefs. So, by considering only the outlook of Yoga, it won't be termed as permissible, rather, Yoga will be completely forbidden and non permissible for muslims by merely considering it's background. Those who term Yoga as permissible by considering it to be only an exercise and believe that there is no harm in adopting Yoga by refraining from its prohibitions, we would like to tell them that the permission and prohibition of an act, and the reasons for it's widespread use should within it's jurisdiction. This can be easily understood by two examples. There is no confinement of time and place for marriage (nikaah) in Islam. By taking advantage of this permission, if a person goes in an idol house, temple or religious places of christians and strictly marries in the Islamic way, then there is no doubt that this is permissible. But following his footsteps, if muslims adopt this detested path and make it a part of society, so now, will this act be considered permissible any more?Similarly, if a muslim chooses a place which is a center of kufr and polytheism or a part of it, for zikr and remembrance of Allah like temple, ashrams, etc, just as nowadays the mandirs are beautifully decorated and spacious, and the people seeking spiritual relief go there and sit in meditation, so will it be permissible for a muslim, that to elevate his spirituality, he goes to such temples and ashrams and sit in meditation instead of the masjid?? The answer that is present for these two examples, the same applies for Yoga. To protect the essence and nature of Islam, is a crucial need in the present times. The soul of Islam cannot be kept intact by practicing yoga merely in the name of physical exercise and a therapy for diseases. According to Science, the acts of worship itslef in Islam are such that every believer can benefits from daily muraaqba, peace of the heart and exercise. The daily five prayers, fasting, hajj and umrah, and during aetekaaf the believer becomes attached to Allah, tries to gain nearness unto Allah, everyday in the prayers he performs the qayam, ruqu, sajda and qaida, which fulfills the need for regular exercise. Apart from this, recitation of the Qura'an, zikr and tasbehaat, taking account of your nafs, tauba and repentance, and turning towards Allah, the believer gains physical and spiritual strength through these. That muslim, in whose heart the enthusiasm and warmth of Imaan is present, let alone engaging in disbelief, the thought of kufr too shakes him up. They are such strong believers of the One Lord, that monotheism is their life's treasured investment. Sins such as kufr, shirk and nifaaq cannot even touch them. They try to protect themselves from the mischief of shaitaan. They keep themselves at peace by the strenght in belief and supreme characterism, and the fear of Allah. Verily this is the Islamic spirit and soul, which makes us the beloved of Allah, and raises our status in the duniya and aakhirah. By: MUFTI HUZAIFA PALANPURI DB ((...The End...)) Link to comment Share on other sites More sharing options...
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now