Jump to content
IslamicTeachings.org

Bint e Aisha

Moderators
  • Posts

    1,749
  • Joined

  • Last visited

  • Days Won

    106

Everything posted by Bint e Aisha

  1. "احتساب قادیانیت" "ختم نبوت کورس" سبق نمبر 2 "آیت خاتم النبیین کی علمی تحقیقی تفسیر" قرآن مجید میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ۔ ( محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے ) (سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40) "آیت کا شان نزول " عرب معاشرے میں یہ قبیح رسم موجود تھی کہ وہ لےپالک بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھتے تھے اور اس لےپالک کو تمام احوال و احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی سمجھتے تھے اور مرنے کے بعد وراثت،حلت و حرمت ،رشتہ ناطہ وغیرہ تمام احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی تصور کرتے تھے ۔ جس طرح نسبی بیٹے کے مرجانے یا طلاق دینے کے بعد باپ کے لئے حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے اسی طرح وہ لےپالک بیٹے کی طلاق یافتہ یا بیوہ بیوی سے نکاح کو حرام سمجھتے تھے ۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے ان کی قبیح رسم کا خاتمہ فرمایا ۔ حضرت زید ؓ بن حارث حضورﷺ کے غلام تھے ۔ حضورﷺ نے انہیں آزاد کرکے اپنا بیٹا بنالیا۔ اور صحابہ کرام ؓ نے بھی ان کو زید ؓ بن حارث کی بجائے زید ؓ بن محمد کہنا شروع کردیا تھا ۔ حضرت زید ؓ بن حارث کی اپنی بیوی حضرت زینب ؓ سے ناچاتی ہوگئی اور انہوں نے حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دی ۔ تو اللہ تعالٰی نے حضورﷺ کو حکم فرمایا کہ آپ حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیں۔ تاکہ اس قبیح رسم کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔ جب حضور ﷺ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیا تو مشرکین نے اعتراض شروع کر دیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔ چنانچہ جواب میں اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمایئں۔ اس ایک فقرے میں ان تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبیﷺ کے اس نکاح پر کر رہے تھے ۔ ان کا اولین اعتراض یہ تھا کہ آپﷺ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپﷺ کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ محمّد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا ؟ تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمدﷺ کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں ۔ ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا ، اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا ، آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا مگر وہ اللہ کے رسولﷺ ہیں ، یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں ۔ پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا اور وہ خاتم النبیین ہیں ، یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے ، لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں ۔ اس کے بعد مزید زور دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد ﷺ کے ہاتھوں اس رسم جاہلیت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی ۔ وہ جانتا ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دنیا میں ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے ۔ بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں ، اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اس کی سنت ہونا ہی لوگوں کے دلوں سے کراہیت کے ہر تصور کا قلع قمع کر دے ۔ "آیت خاتم النبیین کی تفسیر القرآن بالقرآن" قرآن پاک میں 7 جگہ پر ختم کے مادے سے الفاظ آئے ہیں ۔ 1۔ خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ۔ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے ۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 7) 2۔ قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَخَذَ اللّٰہُ سَمۡعَکُمۡ وَ اَبۡصَارَکُمۡ وَ خَتَمَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ مَّنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِہٖ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ ثُمَّ ہُمۡ یَصۡدِفُوۡنَ ۔ ( اے پیغمبر ! ان سے ) کہو : ذرا مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ تمہاری سننے کی طاقت اور تمہاری آنکھیں تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے ، تو اللہ کے سوا کونسا معبود ہے جو یہ چیزیں تمہیں لاکر دیدے؟ دیکھو ہم کیسے کیسے مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں ، پھر بھی یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں ۔ (سورۃ الاعراف آیت نمبر 46) 3۔ اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ؕ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ۔ پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے ، اور علم کے باوجود اللہ نے اسے گمراہی میں ڈال دیا ، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ۔ اب اللہ کے بعد کون ہے جو اسے راستے پر لائے؟ کیا پھر بھی تم لوگ سبق نہیں لیتے؟ (سورۃ الجاثیہ آیت نمبر 23) 4۔ اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ۔ آج کے دن ہم ان کے منہ پر مہر لگادیں گے ، اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے ، اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کمائی کیا کرتے تھے ۔ (سورۃ یس آیت نمبر 65) 5۔ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ۚ فَاِنۡ یَّشَاِ اللّٰہُ یَخۡتِمۡ عَلٰی قَلۡبِکَ ؕ وَ یَمۡحُ اللّٰہُ الۡبَاطِلَ وَ یُحِقُّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۔ بھلا کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ کلام خود گھڑ کر جھوٹ موٹ اللہ کے ذمے لگا دیا ہے ؟ حالانکہ اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مہر لگا دے ، اور اللہ تو باطل کو مٹاتا ہے ، اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعے ثابت کرتا ہے ، یقینا وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں تک کو جانتا ہے ۔ (سورۃ الشوری آیت نمبر 24) 6۔ یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ ۔ انہیں ایسی خالص شراب پلائی جائے گی جس پر مہر لگی ہوگی ۔ (سورۃ المطففین آیت نمبر 25) 7۔ خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ۔ اس کی مہر بھی مشک ہی مشک ہوگی ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس پر للچانے والوں کو بڑھ چڑھ کر للچانا چاہیے ۔ (سورۃ المطففین آیت نمبر 26) ان سات جگہ پر معنی میں قدر مشترک یہ ہے کہ اس کا معنی یہ کیا جاتا ہے کہ کسی چیز کو اس طرح بند کرنا کہ اندر والی چیز باہر نہ جاسکے اور باہر والی اندر نہ جاسکے۔ مثلا "ختم اللہ علی قلوبھم" اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادی ہے۔ اب ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوسکتا اور کفر ان کے دل سے باہر نہیں جاسکتا۔ اسی طرح ہماری زیر بحث آیت میں بھی "خاتم النبیین" کا مطلب یہ ہے کہ دائرہ نبوت میں جتنے نبی آنے تھے وہ آچکے ۔ اب دائرہ نبوت میں نیا نبی نہیں آسکتا۔ اسی طرح دائرہ نبوت سے کوئی نبی باہر نہیں جاسکتا ۔ تفسیر القرآن بالقرآن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد پوری ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت نیا نبی نہیں آسکتا ۔ "تفسیر "خاتم النبیین " بالحدیث" "وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي " "حضورﷺ نے فرمایا "میرے بعد میری امت میں 30 جھوٹے پیدا ہوں گے ان میں سے ہرایک کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ لیکن میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں " (ترمذی شریف حدیث نمبر 2219) اس کے علاوہ ایک اور روایت میں فرمایا ۔ "عن أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ " حضورﷺ نے فرمایا "بیشک رسالت اور نبوت ( مجھ پر) منقطع ہوچکی ہے۔ اب میرے بعد نہ کوئی نبی ہے اور نہ کوئی رسول ہے" (ترمذی شریف حدیث نمبر 2272) ان روایات سے پتہ چلا کہ حضور ﷺنے خود ہی خاتم النبیین کی تشریح فرمادی کہ میرے اوپر رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے اور میرے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ کوئی نیا رسول آئے گا ۔ یعنی نبیوں کی تعداد حضور ﷺ کے تشریف لانے سے مکمل ہوچکی ہے۔ "خاتم النبیین کی صحابہ کرام ؓ سے تفسیر " تفسیر در منثور میں امام ابن جریر نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا "مثلی و مثل النبیین کمثل رجل بنی دارا فأتمھا إلا لبنة واحدة ، فجئت انا فأتممت تلک اللبنة." "حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری اور انبیاء کی مثال ایسے ہے۔ جیسے ایک آدمی گھر بنائے اسے مکمل کردے۔ مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دے۔ میں آیا تو اس اینٹ کو مکمل کردیا۔" (درمنثور (عربی)جلد 12 صفحہ 63 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع مصر 2003ء) (درمنثور (اردو)جلد 5 صفحہ 577 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع ضیاء القرآن پبلیکیشنز 2006ء) تفسیر در منثور میں امام ابن جریر نے حضرت جابر ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا "قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ كَمثل رَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَكْمَلَهَا وَأَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ، فکان من دخلھا فنظر الیھا قال : ما احسنھا إلا موضع اللبنة فأنا موضع اللبنة، ختم بی الانبیاء" "حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری اور انبیاء کی مثال ایسے آدمی جیسی ہے۔جو گھر بنائے جیسے ایک آدمی گھر بنائے اسے مکمل کردے۔ اور اسے اچھا بنائے۔ مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دے۔ جو بھی اس گھر میں داخل ہو اسے دیکھے تو کہے کہ کتنا اچھا ہے مگر ایک اینٹ کی جگہ، میں اس اینٹ کی جگہ ہوں۔ مجھ پر انبیاء کو ختم کیا گیا۔" (درمنثور (عربی)جلد 12 صفحہ 63 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع مصر 2003ء) (درمنثور (اردو)جلد 5 صفحہ 577 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع ضیاء القرآن پبلیکیشنز 2006ء) صحابہ کرام ؓ کی خاتم النبیین کی تفسیر سے بھی پتہ چلا کہ نبیوں کی تعداد حضورﷺ کے تشریف لانے سے مکمل ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ "خاتم النبیین اور اصحاب لغت" آیئے اب لغت سے خاتم النبیین کا معنی متعین کرتے ہیں۔ امام راغب اصفہانی کی لغات القرآن کی کتاب مفردات القرآن کی تعریف امام سیوطی رح نے کی ہے۔ اور امام سیوطی رح قادیانیوں کے نزدیک مجدد بھی ہیں۔ لہذا یہ کتاب قادیانیوں کے نزدیک بھی معتبر ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں۔ "وخاتم النبیین لانہ ختم النبوۃ ای تممھا بمجیئہ" "آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے نبوت کو ختم کردیا۔ یعنی آپﷺ نے تشریف لاکر نبوت کو تمام فرمادیا" (مفردات راغب صفحہ 142) لسان العرب عربی لغت کی مشہور و معروف کتاب ہے۔یہ کتاب عرب و عجم میں مستند سمجھی جاتی ہے۔اس میں خاتم النبیین کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے۔ "خاتمھم و خاتمھم آخرھم عن اللحیانی و محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء علیہ وعلیھم الصلوۃ والسلام " "خاتم القوم زیر کے ساتھ اور خاتم القوم زبر کے ساتھ ، اس کے معنی آخرالقوم ہیں ۔ اور انہیں معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے۔ محمدﷺ خاتم الانبیاء ہیں یعنی آخری نبی ہیں" یہ تو صرف لغت کی 2 کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ لغت کی تقریبا تمام کتابوں میں خاتم النبیین کا یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ لیجئے لغت سے بھی خاتم النبیین کا یہی مطلب ثابت ہوا کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوگئ ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ "خاتم النبيين پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات" قادیانی اعتراض نمبر 1 " کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ لفظ " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہو اور وہاں اس کا معنی " آخری " آیا ہو ، یہ چیلنج سو سال سے دیا جارہا ہے لیکن کوئی اس کو توڑ نہیں سکا " قادیانی اعتراض کا جواب مرزاصاحب نے لکھا ہے کہ "خاتم الخلفاء یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر میں آنے والا ہے۔ " ( خزائن جلد 23 صفحہ 333 ) یہاں " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہے اور مرزا صاحب نے اسکا ترجمہ کیا ہے " آخری خلیفہ " واضح رہے یہ کتاب مرزا صاحب کی زندگی کی آخری کتابوں میں سے ہے۔ قادیانی اعتراض نمبر 2 " ہم نے مرزا جی کی تحریروں سے نہیں پوچھا ، ہم نے لغت کی کتابوں اور عرب محاوارات سے پوچھا ہے اس لئے ہمارے سامنے مرزا جی کی تحریریں نہ پیش کریں۔" قادیانی اعتراض کا جواب آپ کی تسلی کے لئے لغت سے بھی ثابت کر دیتے ہیں ، غور سے پڑھیے گا۔ 1۔" تاج العروس" میں ہے کہ : " والخاتم آخر القوم کالخاتم ومنه قوله تعالیٰ خاتم النبیین أی آخرھم " خاتم کا مطلب ہوتا ہے قوم کا آخری آدمی (یعنی جب خاتم القوم بولا جائے ) اور اسی سے اللہ کا یہ فرمان ہے کہ وخاتم النبیین جسکا مطلب ہے آخری نبی۔ ( تاج العروس جلد 32 صفحہ 45 ) 2۔"لسان العرب" میں ہے کہ " وختام القوم وخاتَمھم وخاتِمھم آخرھم " جب ختام القوم یا خاتَم القوم یا خاتِم القوم بولا جائے تو اسکا معنی ہوتا ہے قوم کا آخری آدمی پھر آگے لکھا ہے " ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین أی آخرھم " خاتم النبیین کا مطلب ہے آخری نبی۔ ( لسان العرب جلد 12 صفحہ 162 ) 3۔"کلیات ابی البقاء" میں ہے کہ "وتسمیة نبینا خاتم الانبیاء لآن الخاتم آخر القوم " ہمارے نبی کریمﷺ کا نام خاتم الانبیاء رکھا گیا ، کیونکہ خاتم کسی بھی قوم کے آخری فرد کو کہتے ہیں۔ ( کلیات ابی البقاء صفحہ 431 ) قادیانی اعتراض نمبر 3 "ہم نے پوچھا تھا کوئی ایسا حوالہ دکھاؤ جہاں " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہو ، تم نے " خاتم القوم " دکھایا ، یہ " قوم " تو واحد ہے جمع نہیں ، اسکی جمع تو " اقوام " آتی ہے." قادیانی اعتراض کا جواب " قوم " واحد نہیں بلکہ " اسم جمع " ہے ، قوم ایک آدمی کو نہیں کہتے بلکہ بہت سے افراد کے مجموعے کو قوم کہتے ہیں ، اس لئے قران کریم اور جہاں بھی " قوم " کا لفظ آیا ہے وہاں اسکے بعد اسکے لئے جمع کی ضمیریں اور جمع کے صیغے ہی لائیں گئے ہیں ، تاج العروس میں جہاں " خاتم القوم " لکھا ہے اسکے بعد لکھا ہے " آخرھم " یعنی انکا آخری ، یہاں " ھم " کی ضمیر " قوم " کی طرف لوٹائی گئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ " قوم " جمع ہے ، آئیے اب قران کریم سے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔ آیت نمبر 1 حضرت نوح علیہ اسلام کے بارے میں آیا ہے کہ " لقد ارسلنا نوحاََ الی قومه فقال یا قوم اعبدوا اللہ مالکم من اله غیرہ انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم۔" ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس آپ نے ان سے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اسکے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ ( سورۂ الاعراف 59 ) اس جگہ نوح علیہ اسلام فرماتے ہیں " یاقوم " اے قوم اور آگے انھیں جمع کے صیغے سے خطاب کرتے ہیں ، " اعبدوا " ، " مالکم " اور " علیکم " کے ساتھ ، ثابت ہوا قوم جمع ہے۔ آیت نمبر 2 ایک جگہ ارشاد ہے " وما ارسلنا من رسول الابلسان قومه لیبین لھم " نہیں بیجھا ہم نے کوئی رسول مگر وہی زبان بولنے والا جو اسکی قوم کی ہو تاکہ وہ ان کے لئے ( اللہ کی بات ) کھول کر بیان کر سکے ( سورۂ ابراھیم 4 ) یہاں قوم کا ذکر کر کے " لیبین لھم " میں " ھم " کی ضمیر جمع لائی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ قوم جمع ہے۔ آیت نمبر 3 ایک اور جگہ نوح علیہ اسلام کا ذکر ہے ۔ " لقد ارسلنا نوحاََ الی قومه فلبث فیھم الف سنة الا خمسین عاما " پس ہم نے بیجھا نوح علیہ اسلام کو انکی قوم کی طرف پس وہ رہے ان میں پچاس کم ہزار سال ۔ ( سورۂ العنکبوت 14 ) یہاں بھی " قوم " کا ذکر کرکے فرمایا " فیھم " اور یہ " ھم " کی ضمیر جمع کی ہے جو قوم کی طرف لوٹائی گئی۔ قران کریم ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ، قوم کا لفظ جہاں بھی آیا ہے اسکی طرف لوٹائی جانے والی ضمیر اور صیغے جمع ہی آئے ہیں اس لئے اسمیں کوئی شک نہیں کہ یہ اسم جمع ہے جو ایسے گروہ کے لئے بولا جاتا ہے جس کے بہت سے افراد ہوں ، اور " اقوام " اسکی جمع الجمع ہے۔ قادیانی اعتراض نمبر 4 " عرب محاورے میں جہاں بھی " خاتم" کی اضافت " جمع " کی طرف آئی ہے وہاں اسکا معنی آخری ہو ہی نہیں سکتا بہت سے لوگوں کو خاتم المحدثین ، خاتم الفقہاء یا خاتم المفسرین کا خطاب دیا گیا ہے ، کیا انکے بعد محدثین ، فقہاء ، مفسرین آنا بند ہو گئے تھے ؟ قادیانی اعتراض کا جواب " اگر کسی انسان نے کسی انسان کے بارے میں یہ لفظ بولا ہے تو چونکہ انسان عالم الغیب نہیں ہے اس لئے یہی دلیل ہے کہ وہ صرف اپنے زمانے کے بارے میں بات کر رہا ہے ورنہ اسے معلوم ہی نہیں کہ بعد میں اس سے بڑا محدث ، فقیہ ، یا مفسر بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ نیز یہاں تو سب سے زیادہ " افضل " والا معنی بھی نہیں ہو سکتا اور نہ اسکا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اب اس محدث یا فقیہ یا مفسر کی مہر سے ظلی بروزی مفسر یا محدث بنے گے ، اب مرزائی متعرض ہی بتائے کہ جہاں کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کے بارے میں " خاتم المحدثین یا خاتم المفسرین " لکھا ہے تو اس کے وہ کیا معنی کرتے ہیں ؟ سب آخری مفسر ، سب سے افضل مفسر ، یا ایسا مفسر جس کی مہر سے محدث یا مفسر بنے گے ؟؟؟ آپ اپنے معنی بیان کرو تاکہ بات اس پر آگے چلے ، ہمارے نزدیک تو صرف یہ تمام مبالغہ کے لئے ہے اور کچھ نہیں ، اور کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ آج کے بعد کوئی مفسر یا کوئی محدث ایسا پیدا ہو ہی نہیں سکتا جو اسکے زمانے کے محدثین یا مفسرین سے بڑا ہو ، لیکن اللہ عالم الغیوب ہے جب کسی کے بارے میں فرمائے " خاتم النبیین " تو وہاں خاتم کا معنی حقیقی لینے میں کوئی خرابی نہیں کیوں کا اللہ کو علم ہے اب قیامت تک کوئی نبی نہیں پیدا ہونے والا۔ قادیانی اعتراض نمبر 5 جب قادیانیوں کو کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے خاتم الاولاد کا مطلب آخری اولاد لیا ہے تو ان کی من گھرٹ دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ لفظ خاتِم ہےخاتَم نہیں ہے ۔ (یاد رہے کہ مرزا صاحب نے جہاں بھی خاتم لکھا وہاں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی) قادیانی اعتراض کا جواب خاتَم اور خاتِم کا معنی: پہلی بات تو یہ ہے کہ خاتَم اور خاتِم کا یہ من گھرٹ فرق جو مرزائی کرتے ہیں کیا لغت عرب میں اس کا وجود ہے ؟؟؟ دو تین کتابوں کے حوالے پیش خدمت ہیں ورنہ پچاسوں کتابیں ہیں جو اس معنی کی تائید میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ 1۔ صاحبِ لسانُ العرب علام ابن منظور جو ساتویں صدی میں کے بہترین عالم گزرے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں یہ تشریح کی ہے " والخَتُمُ ، الخَاتِم ، الخَاتَمُ ، والخَيْتَامُ كُلَّها بعنى واحدٍ و معناها أخيرها" اور ان تمام کا معنی ایک ہی ہے اور وہ کیا کسی چیز کا اخیر۔ختم کرنے والا۔۔ کہتے ہیں " خِتامُ الودای ،خاتَم الوادى ،خاتِم الوادى، أخير الوادى " -- وادی کا اخری کنارہ ۔جہاں وادی ختم ہو جاتی ہے ان الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مزید لکھتے ہیں کہ " خِتَامُ القوم خاتِمُهُمْ و القوم وخَاتَمُهُم أخرهم ( لسانُ العرب جلد 12 صفحہ 164) 2۔ ختمام القوم خاتِم القوم خاتَم القوم سب کا ایک معنی اخر القوم ۔۔۔۔ " والخاتَم والخاتِم:من أسماه النبىﷺ معناہ: آخر الانبیاء :وقال اللہ تعالی ☆ خاتَم النبین☆ " (تہذیب اللغہ جلد 7 صفحہ 316) (لسانُ العرب جلد12 صفحہ 164) (تا كے زیر سے) خاتِم اور (تا کے زبر سے) خاتَم دونوں کا معنی آخر الانبیاء ہے اور اللہ تعالی نے فرمایا خاتَم النبین ۔ معلوم ہوا خاتَم هو یا خاتِم دونوں کا معنی ایک ہی ہے ۔کسی چیز کا کنارہ ،کسی چیز کی انتہا ، جہاں پر کوئی چیز ختم ہو جاتی ہے اس کو خاتَم بھی کہتے ہیں خاتِم بھی کہتے ہیں ،ختام، اور ختم بھی کہتے ہیں یہ تمام کے تمام الفاظ ہم معنی ہیں مترادف ہیں ۔۔۔ یہ معنی آج کے علماء نے نہیں لکھا کہ مرزا صاحب کے تعصب میں مولویوں نے کتابوں میں لکھ دیا ہو بلکہ یہ معنی ان علماء کرام نے لکھا جو مرزا صاحب کے آنے سے ہزاروں برس پہلے گزر چکے ہیں اور جن کی کتابیں لغت عرب میں سند کی حثییت رکھتی ہیں ۔جن کی زبان میں قران نازل ہوا ان علماء کرام کی تحقیق ہے کہ خاتَم ہو یا خاتِم معنی ایک ہی ہے آخر الشئ اور پھر اس کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں جس طرح اللہ تعالی فرماتا "خاتم النبین" "آخرالنبین" سب نبیوں کے آخر میں آنے والا ۔۔۔ اس تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خاتَم کے معنی آخری ہی ہیں اس کے بعد یہ محض دھوکہ فریب اور دجل و تلبیس ہے اگر یہ کہا جائے کہ خاتَم کے معنی اور خاتِم کے معنی اور ہیں ہمارے نزدیک علماء حق اور ائمہ لغت کی تحقیق کے مطابق لفظ خاتَم ہو یا خاتِم اللہ کے محبوبﷺ کے بعد اب اور کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔ "خاتم النبیین کا ترجمہ اور قادیانی جماعت " معزز قارئین ہم نے آیت خاتم النبیین پر علمی ،تحقیقی گفتگو سے ثابت کیا کہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوچکی ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ اب ہم قادیانی جماعت کے اس آیت کے ترجمے اور مفہوم کا جائزہ لیتے ہیں اور آپ کو بتاتے ہیں کہ قادیانیوں کا ترجمہ کیوں غلط ہے۔ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ " خاتم النبیین کا مطلب ہے کہ حضورﷺ کی کامل اتباع سے نبی بنیں گے " (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100) قادیانیوں کے خاتم النبیین کے کئے گئے ترجمے کے غلط ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ وجہ نمبر 1 مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "مجھے نبوت تو ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی " (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 70) ایک طرف تو قادیانی کہتے ہیں کہ نبوت حضورﷺ کی اتباع سے ملتی ہے جبکہ یہاں تو مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ مجھے نبوت ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی۔ اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ مرزا قادیانی کی کون سی بات درست ہے۔ وجہ نمبر 2 مرزاقادیانی نے خود خاتم النبیین کا ایک جگہ ترجمہ لکھا ہے کہ "ختم کرنے والا ہے سب نبیوں کا" (روحانی خزائن جلد 3 صصفحہ 431) اگر یہ ترجمہ غلط ہے تو مرزاقادیانی نے یہ ترجمہ کیوں لکھا؟؟ وجہ نمبر 3 مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ "میرے پیدا ہونے کے بعد میرے والدین کے گھر میں کوئی اور لڑکا یا لڑکی نہیں ہوئی ۔ گویا میں اپنے والدین کے لئے خاتم الاولاد تھا" (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 479) اگر خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کی مہر سے نبی بنتے ہیں تو خاتم الاولاد کا بھی یہی مطلب ہونا چاہیے کہ مرزاقادیانی کی مہر سے مرزاقادیانی کے والدین کے گھر میں اولاد پیدا ہوگی۔ کیا قادیانی یہ معنی خاتم الاولاد کا کریں گے؟ یقینا یہ ترجمہ نہیں کریں گے تو پتہ چلا کہ قادیانیوں کا کیا گیا ترجمہ سرے سے ہی باطل ہے۔ وجہ نمبر 4 ایک طرف قادیانی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی مہر سے ایک سے زائد نبی بنیں گے۔ جبکہ دوسری طرف مرزاقادیانی اور قادیانی جماعت کا موقف ہے کہ صرف مرزاقادیانی کو ہی حضورﷺ کی کامل اتباع سے نبوت ملی ہے۔ (روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406 ) مرزاقادیانی کے بعد خلافت ہے نبوت نہیں۔ تو اس طرح حضورﷺ خاتم النبی ہوئے، خاتم النبیین نہ ہوئے۔ اس لئے خود یہ ترجمہ قادیانیوں کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔ وجہ نمبر 5 اگر خاتم النبیین کا یہ مطلب لیا جائے کہ حضورﷺ کی اتباع سے نبوت ملےگی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر حضرت عیسی علیہ السلام تک انبیاء کے خاتم نہیں بلکہ اپنے سے بعد آنے والے نبیوں کے خاتم ہیں۔ اور یہ بات قرآن و حدیث کی منشاء کے خلاف ہے۔ وجہ نمبر 6 یہ معنی محاورات عرب کے بھی بالکل خلاف ہے کیونکہ پھر خاتم القوم اور خاتم المھاجرین کے بھی یہی معنی کرنے پڑیں گے کہ اس کی مہر سے قوم بنتی ہے اور اس کی مہر سے مھاجر بنتے ہیں۔ اور یہ ترجمہ خود قادیانیوں کے نزدیک بھی باطل ہے۔ قادیانیوں کو چیلنج اگر کوئی قادیانی قرآن پاک کی کسی ایک آیت سے یا کسی ایک حدیث سے یا کسی صحابی یا تابعی کے قول سے خاتم النبیین کا یہ معنی دکھا دے کہ حضورﷺ کی مہر سے یعنی کامل اتباع سے نبی بنتے ہیں تو اس قادیانی کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا ۔ لیکن نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
  2. WAZIFA PRESCRIBED TO FATIMA (RA) AFTER WITR SALAH Status: Fabricated “No believing male or female prostrates twice after Witr, recites ‘subbuhun quddusun Rabbul malaikah war ruh’ five times in each sajdah and recites Ayatul Kursi between the two sajdahs, except that Allah will forgive all his sins and if he passes away on that night, he dies as a martyr. Allah will also grant him the reward of one hundred Hajj and one hundred ‘Umrah. Allah will send one thousand Angels to record good deeds on his behalf, he will attain the reward of freeing one hundred slaves and Allah will accept his supplication” ******* Imam Ibrahim ibn Muhammad Al Halabi (rahimahullah) has declared this narration a fabrication due to the feebleness of the words and the exaggerations mentioned therein. This Hadith should therefore not be quoted. (Ghunyatul Mutamalli -Halabi Kabir-, pg. 273) Note: Reciting ‘Subhanal Malikil Quddus’after the Witr Salah has been proven in other authentic narrations, without the promise of huge rewards. Sayyiduna Ubayy ibn Ka’b (radiyallahu ‘anhu) reports that Rasulullah (sallallahu ‘alayhi wa sallam) would recite ‘Subhanal Malikil Quddus’. Some versions of this Hadith state that he would recite it thrice. (Sunan Abi Dawud, Hadith: 1425 and Sahih Ibn Hibban; Al Ihsan, Hadith: 2450) And Allah Ta’ala Knows best. Answered by: Moulana Suhail Motala Approved by: Moulana Muhammad Abasoomar Checked by: Moulana Haroon Abasoomar hadithanswers ******* By Ibrāhim ibn Muhammad al-Halabī Translated by Muntasir Zaman [Translator’s Preface: The following is an analysis of a hadith concerning the supposed virtue of performing two sajdahs after the Witr prayer followed by the recitation of “subbūh quddūs rabb al-malā’ikah wa al-rūh” and Ayāt al-Kursī. This narration has been cited in Yūsuf ibn ‘Umar al-Kādūrī’s (d. c.700 AH) commentary of Mukhtasar al-Qudūrīentitled Jāmi‘ al-Mudmarāt wa al-Mushkilāt more simply known as“al-Mudmarāt.” It was then quoted by ‘Ālim ibn ‘Alā’ al-Andarpatī (d. 786 AH) in al-Fatāwā al-Tātarkhāniyyah. This excerpt was extracted from Ibrāhīm ibn Muhammad al-Halabī’s (d. 956 AH) work Ghunyat al-Mutamallī, a commentary on Sadīd al-Dīn al-Kāshgharī’s (d. 705 AH) primer Munyat al-Musallī wa Ghunyat al-Mubtadī. In addition to being a great Hanafī jurist, Ibrāhīm al-Halabī was an expert in the sciences of Hadīth as well. Among his works in ‘Ulūm al-Hadīth, is a commentary on Alfiyyat al-Hadīth of Zayn al-Dīn al-‘Irāqī (d. 806 AH).] ******* Ibrāhīm al-Halabī writes: As for what is mentioned in al-Tātarkhāniyyah quoting al-Mudmarāt that the Prophet (peace and blessings be upon him) told Fātimah (Allah be pleased with her): No believing man or believing woman performs two sajdahs [after the Witr prayer]: he recites the following in his [first] sajdah five times: سبوح قدوس رب الملائكة والروح He then lifts his head and recites Ayāt al-Kursī once, and then [performs a second sajdah and] he recites five times: سبوح قدوس رب الملائكة والروح By the being in Whose Hands lies the soul of Muhammad, he will not stand from his place except that Allah will forgive him; grant him the reward of one hundred Hajj and one hundred ‘Umrah; Allah will give him the reward of the martyrs; He will send one thousand angels to write good deeds for him; it will be as if he freed one hundred slaves; Allah will accept his prayer; He will accept his intercession for sixty people doomed to the fire; and he will die as a martyr. This is a fabricated and false hadīth which has no basis. It is impermissible to act upon it and to narrate it except to explain its falsehood, as is the case with fabricated narrations. What indicates that it is a fabrication is the poor wording and the exaggeration that is not in conformity with sharī‘ah and reason, for reward is proportionate to the effort by the dictates of sharī‘ah and reason. The most virtuous of actions are the most strenuous. Indeed, some heretics employ the likes of this hadīth to corrupt the dīn and to deviate people, lure them into transgression, and divert them from exerting themselves in worship. Thus, some of those who lack expertise in the sciences of Hadīth and its routes and lack the ability to distinguish between authentic and false reports are deceived thereby. Rabī‘ ibn Khuthaym states, “Verily, there are hadīths that have a light as bright as day, by which we know (its authenticity), and there are others that possess a darkness, by which we know (its falsity). Ibn al-Jawzī said, “Undoubtedly, the skin of the student of knowledge shivers at the mention of a detestable hadīth, and his heart is generally driven away from it.” “And he to whom Allah has not granted light- for him there is no light.” [10] And Allah, may He be glorified, knows best, and He grants protection and success. Ahadithnotes
  3. "احتساب قادیانیت" "ختم نبوت کورس" سبق نمبر 1 "عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت" عقیدہ ختم نبوت کیا ہے؟ عقیدہ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پوری ہوچکی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت اور رسالت ختم ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ "قرآن مجید کا اسلوب " قرآن مجید نے جہاں اللہ تعالٰی کی وحدانیت، فرشتوں پر ایمان ،قیامت پر ایمان کو جزو ایمان قرار دیا ہے۔ وہاں سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی نبوت و رسالت پر ایمان بھی ایمان کا جزو قرار دیا ہے۔ لیکن پورے قرآن میں ایک جگہ بھی یہ نہیں فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کسی نئے نبی کی وحی یا نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ نبوت و رسالت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد منقطع ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ کیونکہ اگر کسی نئے نبی یا رسول نے آنا ہوتا تو قرآن جیسی جامع کتاب میں اس کا ذکر ضرور موجود ہوتا۔ اب ہم چند آیات آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جن میں سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام اور ان پر ہونے والی وحی پر ایمان لانے کا ذکر ہے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی پر ہونے والی وحی پر یا نئے نبی کی نبوت پر ایمان لانے کا کوئی ذکر اشارتہ، کنایتہ بھی نہیں ہے۔ آیت نمبر 1 وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 2) (اور جو اس ( وحی ) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی ۔اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں ) آیت نمبر 2 لٰکِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ مِنۡہُمۡ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ وَ الۡمُقِیۡمِیۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ الۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓئِکَ سَنُؤۡتِیۡہِمۡ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 162) (البتہ ان ( بنی اسرائیل ) میں سے جو لوگ علم میں پکے ہیں اور مومن ہیں وہ اس ( کلام ) پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ( اے پیغمبر ) تم پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا اور قابل تعریف ہیں وہ لوگ جو نماز قائم کرنے والے ہیں ، زکوٰۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم اجر عظیم عطا کریں گے ) آیت نمبر 3 وَ لَقَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ۔ (سورۃ الزمر آیت نمبر 65) (اور یہ حقیقت ہے کہ تم سے اور تم سے پہلے تمام پیغمبروں سے وحی کے ذریعے یہ بات کہہ دی گئی تھی کہ اگر تم نے شرک کا ارتکاب کیا تو تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے گا ۔ اور تم یقینی طور پر سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوجاؤ گے) آیت نمبر 4 قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ ہَلۡ تَنۡقِمُوۡنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اَنَّ اَکۡثَرَکُمۡ فٰسِقُوۡنَ۔ (سورۃ المائدہ آیت نمبر 59) (تم ( ان سے ) کہو کہ : اے اہل کتاب ! تمہیں اس کے سوا ہماری کون سی بات بری لگتی ہے کہ ہم اللہ پر اور جو کلام ہم پر اتارا گیا اس پر اور جو پہلے اتارا گیا تھا اس پر ایمان لے آئے ہیں ، جبکہ تم میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں؟) آیت نمبر 5 کَذٰلِکَ یُوۡحِیۡۤ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۙ اللّٰہُ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ(سورۃ الشوری آیت نمبر 3) ( اے پیغمبر ) اللہ جو عزیز و حکیم ہے ، تم پر اور تم سے پہلے جو ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ، ان پر اسی طرح وحی نازل کرتا ہے ) ان تمام آیات میں بلکہ پورے قرآن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل ہونے والی وحی کا ہی ذکر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر نہیں۔ عقیدہ ختم نبوت اتنا ضروری اور اہم عقیدہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے عالم ارواح میں، عالم دنیا میں، عالم برزخ میں، عالم آخرت میں، حجتہ الوداع کے موقع پر ،درود شریف میں اور معراج کے موقع پر اس کا تذکرہ کروایا۔ "عالم ارواح میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ " وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ ؕ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ۔ (آل عمران آیت نمبر 81) (اور ( ان کو وہ وقت یاد دلاؤ ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس ( کتاب ) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے ) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے ) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں) اس آیت کریمہ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا ذکر ہے کہ اگر وہ آخری نبی کسی دوسرے نبی کے زمانہ نبوت میں آ گئے تو اس نبی کو اپنی نبوت چھوڑ کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی پڑے گی ۔ یعنی عالم ارواح میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تذکرہ ہورہا ہے۔ "عالم دنیا میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ" عالم دنیا میں سب سے پہلے سیدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "انی عنداللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طیینتہ" میں اس وقت بھی ( لوح محفوظ ) میں آخری نبی لکھا ہوا تھا جب آدم علیہ السلام ابھی گارے میں تھے۔ (مشکوۃ صفحہ 513 ، کنزالعمال حدیث نمبر 31960) اللہ تعالٰی نے دنیا میں جس نبی کو بھی بھیجا اس کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا ذکر یوں فرمایا ۔ "لم یبعث اللہ نبیا آدم ومن بعدہ الا اخذ اللہ علیہ العھد لئن بعث محمد صلی اللہ علیہ وسلم وھو حی لیومنن بہ ولینصرنہ " حق تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام میں سے جس کو بھی مبعوث فرمایا تو یہ عہد ان سے ضرور لیا کہ اگر ان کی زندگی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں تو وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔ (ابن جریر جلد 3 صفحہ 232) اس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "بین کتفی آدم مکتوب محمد رسول اللہ خاتم النبیین" آدم علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی لکھا ہوا تھا ۔ (خصائص الکبری جلد 1 صفحہ 19) اس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما نزل آدم بالھند واستوحش فنزل جبرائیل ۔ فنادی باالاذان اللہ اکبر مرتین۔ اشھد ان لا الہ الااللہ مرتین۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ مرتین۔ قال آدم من محمد۔ فقال ھو آخر ولدک من الانبیاء ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام جب ہند میں نازل ہوئے تو ان کو (بوجہ تنہائی) وحشت ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان پڑھی۔ اللہ اکبر 2 بار پڑھا ۔ اشھد ان لا الہ الااللہ 2 بار پڑھا ۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ 2 بار پڑھا۔ آدم علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت میں سے آپ کے آخری بیٹے ہیں۔ (کنزالعمال حدیث نمبر 32139) "عالم برزخ یعنی عالم قبر میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ" قبر میں جب فرشتے مردے سے سوال کریں گے کہ تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے اور تیرے نبی کون سے ہیں۔ تو مردہ جواب دے گا کہ ربی اللہ وحدہ لاشریک لہ الاسلام دینی محمد نبی وھو خاتم النبیین فیقولان لہ صدقت۔ میرا رب وحدہ لاشریک ہے ۔ میرا دین اسلام ہے ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نبی ہیں اور وہ آخری نبی ہیں۔ یہ سن کر فرشتے کہیں گے کہ تو نے سچ کہا ۔ (تفسیر درمنثور جلد 6 صفحہ 165) "عالم آخرت میں بھی عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ" "عن ابی ھریرۃ فی حدیث الشفاعتہ فیقول لھم عیسی علیہ السلام ۔۔۔‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ" (بخاری حدیث نمبر 4712) (حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جب لوگ حضرت عیسی علیہ السلام سے قیامت کے روز شفاعت کے لئے عرض کریں گے تو وہ کہیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاو ۔ لوگ میرے پاس آیئں گے اور کہیں گے اے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی) لیجئے قیامت کے دن بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تذکرہ ہوگا۔ "حجتہ الوداع میں ختم نبوت کا تذکرہ" "عن ابی امامتہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی خطبتہ یوم حجتہ الوداع ایھاالناس انہ لانبی بعدی ولا امتہ بعدکم" (حضرت ابوامامتہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیے اپنے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا اے لوگو! نہ میرے بعد کوئی نبی ہوگا اور نہ تمہارے بعد کوئی امت ہوگی) (منتخب کنزالعمال برحاشیہ مسند احمد جلد 2 صفحہ صفحہ 391) :خلاصہ ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پوری ہوچکی ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اتنا ضروری اور اہم عقیدہ ہےکہ عالم ارواح ہو یا عالم دنیا ،عالم برزخ ہو یا عالم آخرت ، ہر جگہ اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے تذکرے کروائے ہیں۔ .اگلے سبق میں ہم عقیدہ ختم نبوت پر قرآنی دلیل کا جائزہ لیں گے
  4. Question: What is riyāʾ and can you please advise how to fix it? Answer: Bismillahi Taʿālā Assalāmu ʿalaykum waraḥmatullāhī wabrakātuh, Riyāʾ means “show off”. It is an illness of the heart which remains hidden, unless accountability is made of it. Riyāʾ can creep into many different forms and can afflict even the righteous. Scholars have written numerous treatise on rectification of riyāʾ in one’s thoughts, actions and ʿibādāt. It has a tendency of eating away one’s good deeds like fire. Many actions and ʿibādāt are affected by insincerity leading to Riyāʾ where one starts to do actions to please one’s nafs instead of Allah. If one were to think hard then making our nafs’s pleasure a goal instead of pleasing Allah is nothing short of ascribing partners to Allah. Imām Tirmiẓī raḥimahullāh has pointed towards this while quoting the hadeeth, “Indeed riyāʾ is shirk” In our times, we seek quick fixes for everything. While there is no quick fix for a life long misplaced sincerity, one prescription given by our teachers for shunning riyāʾ and strengthening one’s ikhlās is through sincere “Istighfār“. For every action you do, follow it with sincere Istighfārfrom Allah for not having sincere intention in it. InshāʾAllāh, over time this will rectify the intention and diminish the riyāʾ. At the same time, keep close guidance from pious scholars and guides who can assist you in progress of your heart’s rectification. Finally, one should also be mindful that many individuals who realize the gravity of riyāʾ tend to abandon their ʿibādāt in fear of falling prey to riyāʾ. This retaliation itself is nothing less than the calamity of riyāʾ itself. The idea is to gain closeness of Allāh, inward and outward. Hence if avoidance of riyāʾ leads one to abandon the very act which was to take him closer to Allah, then shayṭān has fooled such an individual into abandoning good action. It is at this juncture, the above prescription is most useful. Carry on with the ʿibādah, while continuing to seek istighfārfrom Allāh. May Allah Taʿālā assist you in abundance and provide you freedom from riyāʾ like the pious aslaaf (predecessors), Ameen. And Allāh Taʿālā Knows best, Wassalamu ʿalaykum, Mufti Faisal al-Mahmudi سنن الترمذي – شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي (4/ 110) عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ الرِّيَاءَ شِرْكٌ fatwa.ca
  5. THE LINEAGE OF NABI (SALLALLAHU ‘ALAYHI WASALLAM) Question Is this lineage of Nabi (sallahu ‘alayhi wasallam) authentic? 1. Sayyiduna Muhammad 2. ibn ‘Abdullah, 3. ibn ‘Abdul Muttalib (also known as Shaybah), 4. ibn Hashim, (also known as ‘Amr), 5. ibn ‘Abd Munâf (also known as Al Mugheera), 6. ibn Qusayy (also known as Zayd), 7. ibn Kilab, 8. ibn Murrah, 9. ibn Ka’b, 10. ibn Lu’ayy, 11. ibn Ghalib, 12. ibn Fahr (who was called Quraysh, and whose tribe was named after him), 13. ibn Malik, 14. ibn An-Nadr (also known as Qays), 15. ibn Kinanah, 16. ibn Khuzaymah, 17. ibn Mudrikah (who was also called ‘Amir), 18. ibn Elias, 19. ibn Mudar, 20. ibn Nizar, 21. ibn Ma’ad, 22. ibn Adnan, 23. ibn Humaisi, 24. ibn Salaman, 25. ibn ‘Aws, 26. ibn Buz, 27. ibn Qamwal, 28. ibn Obai, 29. ibn ‘Awwam, 30. ibn Nashid, 31. ibn Haza, 32. ibn Bildas, 33. ibn Yadlaf, 34. ibn Tabikh, 35. ibn Jahim, 36. ibn Nahish, 37. ibn Makhi, 38. ibn ‘Aid, 39. ibn ‘Abqar, 40. ibn ‘Ubaid, 41. ibn Ad Da’a, 42. ibn Hamdan, 43. ibn Sanbir, 44. ibn Yathrabi, 45. ibn Yahzin, 46. ibn Yalhan, 47. ibn Ar’awi, 48. ibn ‘Aid, 49. ibn Deshan, 50. ibn ‘Aisar, 51. ibn Afnad, 52. ibn Aiham, 53. ibn Muksar, 54. ibn Nahith, 55. ibn Zarih, 56. ibn Sami, 57. ibn Mazzi, 58. ibn ‘Awda, 59. ibn Aram, 60. ibn Qaidar, 61. ibn Sayyiduna Isma’il Zabeehullah, 62. ibn Sayyiduna Ibrahim Khaleelullah, 63. ibn Tarih (also known as Azar), 64. ibn Nahur, 65. ibn Saru, 66. ibn Ra’u, 67. ibn Fâlikh, 68. ibn Abir, 69. ibn Shalikh, 70. ibn Arfakhshad, 71. ibn Sam, ibn Sayyiduna Nuh Najiyullah, 72. ibn Lamik, 73. ibn Mutwashlak, 74. ibn Sayyiduna Idrees (also known as Akhnukh), 75. ibn Yarid, 76. ibn Mahla’il, 77. ibn Qaiban, 78. ibn Anusha, 79. ibn Sayyiduna Shith, 80. ibn Sayyiduna Adam (May Allah’s peace and mercy be upon all of them). Answer The genealogical tree as far as ‘Adnan (no.22) is unanimously correct and recorded by Imam Bukhari (rahimahullah) in his Sahih (before Hadith: 3851). However, there is difference of opinion regarding the rest of the tree. It was the opinion of Sayyiduna ‘Abdullah ibn ‘Abbas that one should not even endeavor to establish more than this. (Refer to Zad al-Ma’ad, vol.1 pg.70 & Fathul Bari, before Hadith: 3851) Imam ibn Sa’d has reported on the authority of Sayyiduna ‘Abdullah ibn ‘Abbas that whenever Rasulullah used to mention his lineage, he never used to go beyond Ma’ad ibn Adnan. (Fathul Bari, before Hadith: 3851) And Allah Ta’ala Knows best, Answered by: Moulana Muhammad Abasoomar Checked by: Moulana Haroon Abasoomar hadithanswers
  6. A general guideline in finding the right muftī to ask fatwā in today’s time With all the options of different ʿulamāʾ and muftiyān (pl. muftī), it is really a new form of test for a questioner to keep his intention pure. Along with a pure intention, ikhlāṣ in action plays a very important role. The goal of asking a muftī a question is to find out what Allāh wants from a person in a certain dilemma. This is the crux of asking for a fatwā. By learning what the Sharīʿah demands at that specific juncture in life, a person comes to know what action he must take so that he gain the closeness of Allāh by fulfilling His orders. Hence, the intent should not only be of ascertaining what the easiest way is to score “pass” in some matter. With that in mind, a layman should find one muftī that he completely trusts with his heart and always stick to asking him. To choose this muftī, he should make sure that the muftī is academically well-read and engrossed in research enough to give him all the answers. Hence the suggestion is not just to find anyone who completed his iftāʾ course and gained the title of “Muftī”; rather, one should find someone who has continued his research and also actively issues fatāwā (i.e. answering Islāmic questions). Once a person finds such a muftī and his heart is content with him, he should stop asking multiple muftiyān and rather stick to this particular muftī. This will make his life so much easier and the focus will be shifted towards fulfilling the rulings instead of researching them and trying to find out which muftī’s opinion seems stronger. While the above is the ideal scenario, in today’s time it becomes almost impossible for one muftī to have mastery in all of the broad fields of the Sharīʿah. Hence, if one has access to multiple muftiyān, then while retaining ikhlāṣ, he can certainly take benefit from multiple muftiyān. Keeping that in mind, while all credible, Allāh-fearing muftiyān are equal for a questioner to approach for his question, there still remains a certain decorum which one should try to uphold while doing so. Remember, the only reason one is broadening one’s list of muftiyān is to seek the experts in their respective fields. For example, Muftī A may be an expert in Islāmic Finance and Technology, while Muftī B may be an expert in ʿibādiyyāt (i.e. the various elements of worship). Thus, the questioner should formulate his list of trusted muftiyān as per their field of expertise for him. Hence, the essential element is trust in one’s heart. This does not only refer to generic trust in Muftī A or Muftī B, rather it could mean one’s reliance on Muftī A in regard to the fiqh of financial issues, while reliance on Muftī B with regard to issues of ḥalāl and ḥarām in food. Now that we have so many avenues of approaching different muftiyān, I recommend that if a person cannot just stick to one muftī all together, then he should have a set group of muftiyān for specific fields. At first it may seem tedious, but remember that we are not making a huge database of muftiyān. When an issue arises, one will simply review the list to see which muftī to approach for that field. Thereafter handling the responses will become much easier. If an individual can make such a list with a single muftī upon whom he relies the most, it makes his life very easy. But just in case he has more than one muftī to approach, then he should follow the following method. Let’s assume that the questioner knows that Muftī A and Muftī B are experts in financial issues. He has complete iṭmiʾnān (peace of mind) in their decision. Then, in the field of food issues, he relies on Mufti C or Mufti D or Organization E who are experts in food science. His heart is completely content with their decision knowing that they have expertise. So now, when a question in finance comes to him, he does not need to look at C, D, or E. He knows he can simply approach A and B. Remember that the questioner already knows that his reliance is on both of them. If both muftiyān in his list of relied upon muftiyān give a unanimous answer, then he does not need to look any further. However, if one of them gives permission while the other does not, then since his primary goal of asking the question is to gain taqwā, he will follow and practice upon whichever opinion takes him closer to Allāh, i.e through taqwā. If one has more than two muftiyān in such a list, then generally taqwā would still demand to opt for the cautious view. This is why I generally do not suggest adding too many muftiyān in the mix as it only makes one’s decision making difficult. The application of this procedure demonstrates that opting for the cautious fatwā is the key. If the questioner has a question in relation to food, then let him ask C, D, and E to get their expert opinion. If their answers are unanimous, then there is no further question required. If they give differing responses between permissibility or impermissibility, then caution demands that one opts for the view of impermissibility. In this case, if the item which he asked about was in fact permissible, he would have stayed away from it out of caution and gained additional rewards from Allāh. However, if the item happens to be impermissible (i.e the muftī who gave the fatwā of permissibility erred), then the questioner would have saved himself from something impermissible. Similarly, in the case of ʿibādah, let’s say the questioner is wondering if he should repeat some act of worship he performed which he fears may have been invalidated due to some act. According to his list of relied upon muftiyān, he will only ask those whom he found to be experts in this field. If both muftiyān in his list give him a unanimous answer, then there is no other course of action to consider. However, if one muftī gives fatwā that the act of worship must be repeated while the other gave the fatwā that repeating the act is not necessary, then opting for the cautious fatwā here would mean to take the fatwā of repeating the act. This is because if the act in reality did not need to be repeated, his act would become nafl and he would get rewards for the act (i.e. performing extra worship) as well for as opting for cautious opinion. However, if it did have to be repeated, then he would have saved himself from the sin of not repeating it. Once you understand this mechanism, you will realize that the questioner’s own sincerity plays an important role. By keeping to this code, one would always aspire to be better oneself in one’s religion for the sake of Allāh. The only question that then remains is: If the taqwā position is to take the cautious view, does that mean taking the non-cautious view is still permissible? In short: Yes, it does. However, since the desire of a muʾmin is to do one’s best for Allāh, one’s aim should be to adopt the position of taqwā. Having this thought in one’s heart will always keep one yearning for the best as a questioner. However, if for some reason he is unable to do the best and does not opt for the cautious opinion, then he will still retain the desire in his heart along with regret for having lost the opportunity to gain more rewards. We hope that Allāh will still shower His blessings upon him. But at this point, the person should always remember that he has knowingly chosen the lesser opinion and those who take the better opinion have shown greater strength and love of īmān. Wallāhu Aʿlam Muftī Faisal al-Maḥmūdī qafila.org
  7. Question: Could you confirm if we can hold the qur’an and read from it while performing congregational salah? Answer: Bismillahi Ta’ala Assalamu alaikum warahmatullahi wabrakatuh, According to Ḥanafiyyah holding the Qurʾān in salah is an excessive action which nullifies the salah for the one who does it. If the Imām holds it, then according to Imām Abu Ḥanīfah raḥimahullāh, his ṣalāh will be void and hence making the entire congregation void. If a muqtadī (follower) holds the Qurʾān behind an Imām, then only this follower will be committing an excessive action, hence only his salah will be void and not the Imām’s or the congregation’s. However, If this muqtadī were to then give correction to the Imām by reading from his muṣḥaf then this is classified as the Imām taking assistance from someone who is out of ṣalāh (i.e. a muqtadī whose ṣalāh just got invalidated due to excessive action of holding the muṣḥaf). In essence, Imām’s taking assistance from someone not in ṣalāh is also contrary to the actions of Salah. Thus, if the imam takes this correction from that muqtadī then his salah will also become invalidated which further invalidates the ṣalāh of the entire congregation. And Allah Ta’ala Knows best, Wassalamu `alaykum, Mufti Faisal al-Mahmudi بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع – دار الكتب العلمية (1/ 236) ولو قرأ المصلي من المصحف فصلاته فاسدة عند أبي حنيفة، وعند أبي يوسف ومحمد تامة ويكره وقال الشافعي: لا يكره واحتجوا بما روي أن مولى لعائشة – رضي الله عنها – يقال له ذكوان كان يؤم الناس في رمضان وكان يقرأ من المصحف ولأن النظر في المصحف عبادة والقراءة عبادة وانضمام العبادة إلى العبادة لا يوجب الفساد إلا أنه يكره عندهما؛ لأنه تشبه بأهل الكتاب، والشافعي يقول ما نهينا عن التشبه بهم في كل شيء فإنا نأكل ما يأكلون ولأبي حنيفة طريقتان: إحداهما أن ما يوجد منه من حمل المصحف وتقليب الأوراق والنظر فيه أعمال كثيرة ليست من أعمال الصلاة ولا حاجة إلى تحملها في الصلاة فتفسد الصلاة، وقياس هذه الطريقة أنه لو كان المصحف موضوعا بين يديه ويقرأ منه من غير حمل وتقليب الأوراق أو قرأ ما هو مكتوب على المحراب من القرآن لا تفسد صلاته لعدم المفسد وهو العمل الكثير، والطريقة الثانية أن هذا يلقن من المصحف فيكون تعلما منه ألا ترى أن من يأخذ من المصحف يسمى متعلما فصار كما لو تعلم من معلم وذا يفسد الصلاة وكذا هذا، وهذه الطريقة لا توجب الفصل بين ما إذا كان حاملا للمصحف مقلبا للأوراق وبين ما إذا كان موضوعا بين يديه ولا يقلب الأوراق، وأما حديث ذكوان فيحتمل أن عائشة ومن كان من أهل الفتوى من الصحابة لم يعلموا بذلك وهذا هو الظاهر بدليل أن هذا الصنيع مكروه بلا خلاف ولو علموا بذلك لما مكنوه من عمل المكروه في جميع شهر رمضان من غير حاجة، ويحتمل أن يكون قول الراوي كان يؤم الناس في رمضان وكان يقرأ من المصحف إخبارا عن حالتين مختلفتين أي كان يؤم الناس في رمضان وكان يقرأ من المصحف في غير حالة الصلاة إشعارا منه أنه لم يكن يقرأ القرآن ظاهره فكان يؤم ببعض سور القرآن دون أن يختم أو كان يستظهر كل يوم ورد كل ليلة ليعلم أن قراءة جميع القرآن في قيام رمضان ليست بفرض. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – دار الفكر (1/ 624) (قوله لأنه تعلم) ذكروا لأبي حنيفة في علة الفساد وجهين. أحدهما: أن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير. والثاني أنه تلقن من المصحف فصار كما إذا تلقن من غيره. وعلى الثاني لا فرق بين الموضوع والمحمول عنده، وعلى الأول يفترقان وصحح الثاني في الكافي تبعا لتصحيح السرخسي؛ وعليه لو لم يكن قادرا على القراءة إلا من المصحف فصلى بلا قراءة ذكر الفضلي أنها تجزيه وصحح في الظهيرة عدمه والظاهر أنه مفرع على الوجه الأول الضعيف بحر درر الحكام شرح غرر الأحكام – دار إحياء الكتب العربية (1/ 103) (قوله؛ لأنه يتلقن من المصحف. . . إلخ) أشار به إلى أنه لا فرق بين كون المصحف محمولا أو موضوعا فتفسد بكل حال وهو الصحيح كما في الكافي وهذا إذا لم يكن حافظا إذ لو كان يحفظ إلا أنه نظر فقرأ لا تفسد كما في الفتح من غير حكاية خلاف. وقال الزيلعي، ولو كان يحفظ القرآن وقرأه من مكتوب من غير حمل المصحف قالوا لا تفسد صلاته لعدم الأمرين جميعا اهـ يعني التلقين والحمل ففيه إشارة إلى الخلاف اهـ. وقال الفضلي ولهذا أي لكون التلقين من الغير مفسدا فكذا من المصحف أجمعنا على أنه إذا كان يمكنه أن يقرأ من المصحف ولا يمكنه أن يقرأ عن ظهر القلب لو صلى بغير قراءة تجزئه اهـ، ذكره الكاكي. وقال في البحر ما ذكره الفضلي متفرع على الصحيح من أن علة الفساد تلقنه، وبهذا ظهر أن تصحيح الظهيرية أنه إذا لم يكن قادرا إلا على القراءة من المصحف فصلى بغير قراءة الأصح أنها لا تجوز متفرع على الضعيف من أن علة الفساد الحمل وتقليب الأوراق. اهـ. fatwa.ca
  8. Question What is your opinion about making istinjā’ with zamzam water? Here so many people make wudhu’ with zam-zam water. Is this appropriate? Answer: Bismillāhi Taʿala, Waʿlaikum Assalām Waraḥmatullāh, If one is in state of ṭahārah (free from any ritual or physical impurity) and already has wuḍū’, then it is permissible to do wuḍū’ merely to attain barakah of zamzam. Similarly, it is permissible to take barakahfrom it by soaking some cloth in it. If one is not in the state of wuḍū’, then there are two possibilities. Either there is other water available or not. If there is other water available, then using zamzam for doing wuḍū’ will be makrūh. However if out of need while there is no other means of making the wuḍū’, using zamzam will not be makrūh. If on is not in a state of ṭahārah (either has physical najāsah, or is junub), then it is remain makrūh to use zamzam. The same will apply for removing any physical impurity from one’s body or cloth. Similarly, making istinjā’ with zamzam is always makruh. According to some fuqahā’ it is even harāmto use zamzam for istinjā’. Fiqhi books mention that some incidents have been recorded where people used zamzam for istinjā’ and were affected by piles disease. Nontheless, zamzam is blessed water, and should be afforded its honour. It is inappropriate to use it otherwise in places of dishonor. [1] Wallāhu Aʿlam, Wassalamu ʿalaykum, Mufti Faisal al-Mahmudi www.fatwa.ca [1] يجوز الوضوء والغسل بماء زمزم عندنا غير كراهة بل ثوابه أكبر وفصل صاحب "لباب المناسك" آخر الكتاب فقال: يجوز الاغتسال والتوضؤ بماء زمزم إن كان على طهارة للتبرك فلا ينبغي أن يغتسل به جنب ولا محدث ولا في مكان نجس ولا يستنجي به ولا يزال به نجاسة حقيقة وعن بعض العلماء تحريم ذلك, وقيل: إن بعض الناس استنجى به فحصل له باسور اه (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 21)) (قوله: بلا كراهة) أشار بذلك إلى فائدة التصريح به مع دخوله في قوله وآبار وسيذكر الشارح في آخر كتاب الحج أنه يكره الاستنجاء بماء زمزم لا الاغتسال. اهـ. فاستفيد منه أن نفي الكراهة خاص في رفع الحدث بخلاف الخبث. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 180)) أما الوضوء به لمن كان طاهر الأعضاء فلا أعلم في جوازه خلافا بل صرح باستحبابه غير واحد نقلا عن ابن حبيب. وكذلك لا أعلم في جواز الغسل به لمن كان طاهر الأعضاء خلافا بل صرح ابن حبيب أيضا باستحباب الغسل به قال فضل بن مسلمة في اختصار الواضحة لابن حبيب ويستحب لمن حج أن يستكثر من ماء زمزم تبركا ببركته يكون منه شربه ووضوءه واغتساله ما أقام بمكة ويكثر من الدعاء عند شربه انتهى، ويؤخذ استحباب الغسل أيضا من كلام اللخمي (مواهب الجليل في شرح مختصر خليل (1/ 46)) fatwa.ca
  9. مجاہدات سلوک کی شرعی حیثیت اللہ جل شانہ کا ارشاد پاک ہے : طہٰ! ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نہیں اتاراکہ آپ خواہ مخواہ کسی محنت شاقہ اور تکلیف شدید میں مبتلا ہوں ۔” ( طہٰ :1،2 ) بعض روایات میں ہے کہ ابتدائے اسلام میں حضور ﷺ تہجد کی نماز میں کھڑے ہوکر بہت زیادہ قرآن پڑھتے تھے جس کی وجہ سے پیروں میں ورم آجاتا تھا اس آیت میں اسی مجاہدہ وریاضت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( ابن مردویہ ) 2۔ارشاد ربانی ہے : “اے مزمل! راتوں کو اپنے پروردگار کی عبادت میں کھڑے رہا کرو ، ہاں ! شب کا کچھ حصہ یعنی آدھی رات یا تہائی رات یا دو تہائی رات آرام بھی کرلیا کرو۔ اور قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھو ۔ ہم آپ پر ایک گراں بار کلام اتارنے والے ہیں ۔ بے شک شب بیداری بڑی بھاری ریاضت اور نفس کشی ہے ۔ ( المزمل :2،1 ) 3۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے ضرور دکھاتے ہیں ۔” ( العنکبوت ) ان آیات سے معلوم ہو ا کہ مشقوں اورشدائد کو جھیلنے کے بعد ہی انسان میں پختگی آتی ہے ۔ ریاضات ومجاہدات کی چھلنی میں چھلنے کے بعد ہی کردار وعزیمت کی راہیں ہموار ہوتی ہیں ۔ا ن آیات میں یہ اشارہ بھی ہے کہ نبی کریمﷺ کے عالی ترین رتبے اور مقام کا ایک راز سخت ترین مشقتیں برداشت کرنا بھی ہے ۔سورہ طہٰ اور مزمل کی آیات میں مزید ایک فائدہ یہ بھی بیان کیا گیاہے مجاہدات وریاضات میں افراط اورحد سے تجاوز نہیں ہونا چاہیے اعتدال اور میانہ روی کو ہر دم ملحوظ نظر رکھنا چاہیے۔مجاہدات میں اتان غلو نہیں ہونا چاہیے کہ خوس اپنی ذات اور اہل وعیال کے حقوق سے غفلت ہوجائے ۔ 4۔ حضرت فضالہ کامل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کامل مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مقابلے میں اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے ” ( بیہقی فی شعب الایمان بحوالہ لتکشف ص 204 ) 5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” اے ابن آدم تو میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا میں تیرے دل کو غنا سے بھر دوں گااور تیری محتاجی کو ختم کروں گا اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو تیرے دونوں ہاتھوں کو مشاغل سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی بھی ختم نہیں کروں گا ۔” ( ترمذی بحوالہ ( ص 383) 6۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن بانس کی ایک دیوار کی گار ے سے لپائی کررہاتھا کہ وہاں سے نبی کریم ﷺکا گزرہوا۔آپ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا عبداللہ یہ کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا : حضورﷺ دیوار کی مرمت کررہا ہوں۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں تو موت کو اس سےسے بھی جلدی آنے والی دیکھتا ہوں (ابوداؤد ترمذی بحوالہ المکشف ص 272) حضرت جابررضی اللہ عنہ ، حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایک موقع پر کہا ہو ا قول نقل کرتے ہیں : تمہیں جس چیز کا شوق ہو اسے خرید ہی لیتے ہو۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں کیونکہ آدمی کے مسرف ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جس چیز کی چاہت ہو اسے خرید کر کھالیاکرے ( موطا مالک بحوالہ التکشف ص334 ) حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جوشخص قدرت کے باوجود زینت کے لباس کو ازراہ تواضع چھوڑ دے گا ۔ قیامت کے دن اللہ اسے عزت واکرام کے طور پر تمام خلائق کے سامنے بلائیں گے اور یہ اختیار دیں گے کہ ایمان کے جوڑوں میں سے جو جوڑا پسند ہو پہن لے۔ اگر چہ ایمانی رتبے کے اعتبار سے وہ اس سے کم درجہ کا مستحق ہو۔ (ترمذی بحوالہ التکشف ص377) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت کی مثل ہے “۔ ( مشکوۃ : 439) حضرت ابو ہریرہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جہنم کو خواہشات کی پیروی سے اور جنت کو شدائد اور مشقوں کے جھیلنے سے ڈھانپا گیاہے ۔ ” ( مشکوۃ :439) 11۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ دعا فرمائی : ” اے اللہ ! آل محمد کا رزق بقدرکفایت کردے ( مشکوۃ: 440) ان تمام احادیث میں ریاضت ومجاہدہ کی زندگی گزارنے کا سبق ملتا ہے بشرطیکہ ا س پر صبر اور دوام آسکے ۔ اگر مجاہدہ اور قناعت والی زندگی پر صبر نہ ہوسکے یا ریاضت پر دوام نہ کرسکتا ہو تو وسعت اور فراخی سے زندگی گزارے اور جس قدر طاقت ہو اتنے ہی مجاہدات کرے یہ تووہ احادیث تھیں جن سے مجاہدہ کی اصل ثابت ہوتی ہے اب ایسی احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن میں مجاہدات کے ثبوت کے ساتھ ساتھ تنبیہ بھی پائی جاتی ہے کہ ان مجاہدات وریاضت میں غلو نہ ہونا چاہیے ۔اعتدال اور میانہ روی ہونی چاہیے۔ 12۔ حضرت انس ر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لائے تو ایک رسی کو دیکھا جودوستونوں کےدرمیان بندھی ہوئی تھی ۔ فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ حاضرین نے عرض کی کہ یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ باندھی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جب عبادت م نشاط کی کمی محسوس ہو تو اس سے لگ کر کھڑی ہوجائے۔ حضورﷺ نے ارشادفرمایا : یہ طریقہ ٹھیک نہیں ، رسی کھول دو، نماز تہجد طبیعت کی تازگی تک پڑھنی چاہیے اور جب احساس تھکن ہو تو بیٹھ جانا چاہیے ۔ ( بخاری ، نسائی ، ابو داؤد بحوالہ المکشف :265 ) حضرت عبداللہ بن عباس جب خوارج کی تفہیم کے لیے گئے تویمن کا ایک عمدہ جوڑا پہن کر تشریف لے گئے ، خوارج نے اس پر اعتراض کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم اس کی وجہ سے مجھ پر کیوں اعتراض کررہے ہو ، میں نے خودرسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک پر نفیس جوڑا دیکھا ہے۔” ( ابوداؤد بحوالہ المکشف ص378) 14۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ہر نئے کام میں ابتداء جوش وخروش ہوتا ہے اورہر جوش کا انجام سستی ہے ۔ لہذا صاحب عمل کو دیکھنا چاہیے اگر وہ میانہ روی کے ساتھ ٹھیک ٹھیک کام کرےتو اس کی کامیابی کی امید رکھو اور اگر اتنا زیادہ کام کرے کہ اس پر انگلیوں سے اشارے ہونے لگیں تو اس کو زیادہ اہمیت مت دو ( ترمذی بحوالہ التکشف ص 417) 15: حضورﷺ کا ارشاد ہے : ” مشقت اتنی اٹھاؤ جس کو نبھانے کی طاقت ہو۔ ( بخاری،مسلم بحوالہ التشرف ) 16: ارشاد نبوی ہے : ” میانہ روی تمام امور میں بہترین چیز ہے ۔ ” ( بیہقی بحوالہ التشرف ) ان تما م قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے صاف صاف یہ ثابت ہوتا ہے کہ مجاہدات وریاضات کوئی بے اصل چیز نہیں ، بلکہ شریعت میں اس کا ثبوت ہے ۔ ایک چیز بدعت اس وقت ہوتی ہے جب وہ کسی اصل شرعی سے ثابت یا اس کے تحت داخل نہ ہو اور اہل تصوف کے ہاں رائج مجاہدات وریاضات اصل شرعی کے تحت داخل ہی نہیں ثابت بھی ہیں ۔ لہذا انہیں بدعت کہنا سراسر ناواقفیت اور لاعلمی کی دلیل ہے۔ مذکورہ بالا آیاتواحادیث سے ” مجاہدات ” کی اصل ثابت ہوتی ہی ہے قیاس شرعی عقل اور درایت سے بھی اس کا ثبوت واضح ہے جویہ ہے : حضرت انسان اول جب جنت میں تھے توکوئی بیماری لاحق نہ ہوتی تھی لیکن جب جنت اورقرب ومعرفت الٰہی کے بدیہی دلائل سے دوری ہوئی اورحضرت انسان دنیا پر آیا تو جسمانی بیماریاں ظاہر ہونے لگیں اورقیام جنت کے زمانہ سے جتنا فاصلہ ہوتا گیا اتنی بیامریاں وجود میں آنے لگیں گذشتہ دور میں جتنی بیماریاں تھیں دورحاضر میں اس سے زیادہ تعداد میں ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتارہے گا اللہ تعالیٰ نے ا ن جسمانی بیماریوں کے تدارک کے لیے علم طب کو پیدا فرمایا جو مختلف بیماریوں کا مختلف نسخہ جات سے اور موسموں اور طبیعتوں کے لحاظ سے علاج کرتا ہے اور مریض کو دوران علاج بہت سی چیزوں سے پرہیز کراتا ہے کڑوی دوائی اور مختلف قسم کی پابندیوں پر کاربند رہنے کے بعدس مریض کو شفایابی ہوتی ہے پھر طب کے طریقے اورسلسلے بھی متعدد ہیں ۔ مثلا : طبس یونانی ، ہومیو پیتھی ، ایلو پیتھی وغیرہ ۔ بالکل اسی طرح دور نبوی وعہد صحابہ میں بھی تصوف یعنی طب روحانی کی ضرورت نہ تھی ، جیسے جیسے زمانہ نبوت سے بعد ہوتا گیا طب روحانی کی ضرورت محسوس ہونے لگی ۔سوچنے کی بات ہے کہ اللہ جل شانہ نے جب انسان کی جسمانی بیماریوں کے لیےطب کو پیدا کیا تو کیا وہی خدا انسان کی روحانی بیماریوں کے لیے کوئی طب پیدا نہیں کرے گا۔ جبکہ مقام ومرتبہ میں روح کا درجہ زیادہ بھی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خیر القرون میں ہی طب روحانی کو وجود بخشا جوروح کی مختلف بیماریوں کا مختلف طریقوں سے، طبیعتو ں کے لحاظ سے علاج کرتی ہے اورروحانی بیماریوں کے خاتمے اور مقصود اصلی یعنی قرب ومعیت الٰہی کے حصول کے لیے متعدد ریاضات ومجاہدات کراتی ہے اور اس کے بھی نقشبنیہ، چشتیہ ، قادریہ ، سہروردیہ کی صورتوں میں متعددسلسلے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو محض وسائل کے درجہ میں سمجھاجاتا ہے مقصود نہیں سمجھاجاتا۔ مقصود تو صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے تعلق مع اللہ ، قرب خداوندی اور معیت الٰہی ۔ تحریر: مفتی انس عبدالرحیم Suffah
  10. Question: Are false lashes which are not extensions, but just glued on the eye lid allowed? Answer: Bismillahi Ta’ala Assalamu alaikum warahmatullahi wabrakatuh, Yes it is permissible to use fake eyelashes for beutification. However, the following should be kept in mind: a. It should be synthetic and not from pig or human hair. b. It should not be adorned to deceive a potential spouse of personal beauty, or anyone else. c. The purpose should not be to beautify for public, rather for one’s own husband. d. The purpose should also not be to change one’s appearance in dislike of how Allah has created oneself. One should also keep health risks in mind so as not to cause harm to one’s eyes. And Allah Ta’ala Knows best, Wassalamu `alaykum, Mufti Faisal al-Mahmudi (الدر المختار وحاشية ابن عابدين – دار الفكر (6/ 372)) (وصل الشعر بشعر الآدمي حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها) لما فيه من التزوير كما يظهر مما يأتي وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضا: لكن في التتارخانية، وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئا من الوبر (قوله «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زورا والمستوصلة: التي يوصل لها ذلك بطلبها والواشمة: التي تشم في الوجه والذراع، وهو أن تغرز الجلد بإبرة ثم يحشى بكحل أو نيل فيزرق والمستوشمة: التي يفعل بها ذلك بطلبها والواشرة: التي تفلج أسنانها أي تحددها وترقق أطرافها تفعله العجوز تتشبه بالشواب والمستوشرة: التي يفعل بها بأمرها اهـ اختيار، ومثله في نهاية ابن الأثير وزاد أنه روي عن عائشة – رضي الله تعالى عنها – أنها قالت: ليس الواصلة بالتي تعنون. ولا بأس أن تعرى المرأة عن الشعر، فتصل قرنا من قرونها بصوف أسود وإنما الواصلة التي تكون بغيا في شبيهتها فإذا أسنت وصلتها بالقيادة والواشرة كأنه من وشرت الخشبة بالميشار غير مهموز اهـ (قوله والنامصة إلخ) ذكره في الاختيار أيضا وفي المغرب. النمص: نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه، ففي تحريم إزالته بعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. وفي تبيين المحارم إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب اهـ، وفي التتارخانية عن المضمرات: ولا بأس بأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشبه المخنث اهـ ومثله في المجتبى تأمل fatwa.ca
  11. Question: Salam alaykom, Dear Shaykh I want to ask why do people look down upon women who cannot conceive kids, didn’t the prophets wife Aisha RA also not have kids and other wives of the prophet SAW? shukrqan Answer: In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh. Allah alone decrees which woman will have children and He also decrees whether the children will be males or females. Allah also decrees a woman not being able to conceive. See the following verse; Allah Ta`ala says: {يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ} [الشورى: 49، 50] Translation: He confers females (offspring) to whomsoever He wills, confers males to whoever he wills or He grants then male and female (offspring to those parents whom He wills). Allah also makes whomsoever He wills barren (so that they don’t have any children). Indeed, He is the All Knowing (knows who deserves what), All Powerful (He does as He pleases). It is clear from the above verse that having children is beyond human control. If a person looks down upon a woman who is unable to conceive, that is due the person’s short sightedness. How can one look down upon someone for something that is beyond ones control. If that was the case, then there are many issues in a person’s life that are beyond ones control. Then every person should be looked down upon including a woman who has children. Would it be correct to look down upon a person for the colour of her skin? Would it be correct to look down upon a person for her height? Would it be correct to look down upon a person for her natural features? What is then the difference between such person and a person who is unable to conceive. In fact, a woman who is unable to conceive can pride herself to be like Hazrat Ayesha (radiyallahu anha) who did not have children. A woman who can’t conceive children may pride herself to be included in the following hadith; المعجم الكبير للطبراني (12/ 197) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ مَاتَ لَهُ فَرَطَانِ مِنْ أُمَّتِي أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّةَ» ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَمَنْ مَاتْ لَهُ فَرَطٌ؟ قَالَ: «وَمَنْ مَاتَ لَهُ فَرَطٌ يَا مُوَفَّقَةُ» ، قَالَتْ: فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ فَرَطٌ؟ قَالَ: «فَأَنَا فَرَطُ أُمَّتِي لَمْ يُصَابُوا بِمِثْلِي» Translation: Ibn Abbās (Radiyallāhu anhu) reported that Nabī (Sallāllāhualaīhiwasalam) said: Whosoever from my Ummah has two children that pass away before the parents then, Allāh Tā`la will enter the parents into paradise because of the two children. So Hazrat Aisha (Radiyallāhu Anha) enquired: What about the person, who has one child that passes away before them, Nabī Sallāllāhu alahiwasalam replied: the same will be awarded to those who have one child that passed away before them. Aisha (Radiyallāhu Anha) further asked: what about them who no children passed away before them? Nabī (Sallāllāhu alahiwasalam) replied: then I will be the one to go ahead of them and prepare for them. And Allah Ta’āla Knows Best Hafizurrahman Fatehmahomed Student Darul Iftaa Netherlands Checked and Approved by, Mufti Ebrahim Desai. Answerstofatawa
  12. EXERCISE 1: الله تعالي الله تعالي محمد مُحَمَّدْ EXERCISE 2: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّى قَرِيبٌ‌ۖ أُجِيبُ دَعۡوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِ‌ۖ فَلۡيَسۡتَجِيبُواْ لِى وَلۡيُؤۡمِنُواْ بِى لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُونَ (2:186) FURTHER PRACTISE: هو الشيخ الإمام حجة الإسلام في الهند أحد العلماء الربانيين
  13. Thank you so much Aapa. This has helped me relieving some stress :) The E Islam was very helpful. MashaAllah IT has almost everything I need to read. May Allah ta'ala reward you with the greatest of rewards (ameen).
  14. I remember death when my exams are near :( Please pray for me. And may Allah reward you all for this wonderful thread.
  15. Ibn al-Qayyim (رحمه الله) said, “Go on the path of truth and do not feel lonely because there are few who take that path, and beware of the path of falsehood and do not be deceived by the vastness of the perishers.”
  16. Covering one’s face (Niqab) from strangers according to Shariah In the name of Allah, Most Gracious Most Merciful. Is it necessary for a woman to cover her face in the presence of strangers (who are not her designated Mahaarim) according to Shariáh? This question is answered in this article in the context of the claim that the veil or Niqaab is primarily 'a social requirement and custom according to the environment and custom, and according to the environment and customs of a particular country.' In endeavoring to answer the question, we will confine ourselves to a brief examination of the relevant Qur'anic verses. {قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (31) } [النور: 30، 31] 'And Say to the believing women to lower their gaze (from looking at forbidden things), and protect their private parts (from illegal sexual acts) and not to show off their adornment except only that which is apparent (like both eyes for necessity to see the way, or outer palms of hands or one eye or dress like veil, gloves, head-cover, apron), and to draw their veils all over Juyubihinna (i.e. their bodies, faces, necks and bossoms) and not to reveal their adornment except to their husbands, or their fathers, or their husband's fathers, or their sons, or their husband's sons, or their brothers or their brother's sons, or their sister's sons, or their (Muslim women) (i.e. sisters in Islam), or the (female) slaves whom their right hands possess, or old male servants who lack vigour, or small children who have no sense of feminine sex. And let them not stamp their feet so as to reveal what they hide of their adornment. And all of you beg Allah to forgive you all, O believers, that you may be successful' (Surah An-Nur, Verses 30 and 31) It is apparent that upon a plain reading the purpose of the verse is to eradicate promiscuity, fornication and adultery and all the preliminary steps that lead directly to the commission of such shameful acts. The references to 'lowering their gaze', 'drawing their veils over their bosoms' and 'striking their feet to draw attention' indicate that all acts or omissions which in the ordinary course leads directly to sexual promiscuity and fitnah are forbidden. In order to totally eradicate sexual promiscuity and fitnah, the verse goes on to say that a woman is not permitted to display her beauty and charms except in degrees to her husband, father and the other classes of person specified in the verse. The exempt class would constitute the mahaarim, and any other would qualify as strangers or gher mahaarim. The principle fixed by the verse is, therefore that a woman cannot display her beauty to any male person other than the persons exempted by the verse. It goes without saying that the face is the focal-point of a woman's beauty, and the main source of attraction. Hence, the face of a woman cannot be displayed or shown to a stranger in normal circumstances whether in public or private according to the general principle fixed by the verse as stated above. She is permitted to display her beauty to the exempt class (the mahaarim) for obvious reasons of close contact, and because of the considerably lesser danger of sexual promiscuity and fitnah within that class. (Zamakhshari) The Shari’ah, however, is practical, dynamic and takes into account the real situations of life. A woman may in the case of genuine need be forced to expose her face in the presence of strangers. For example, when she appears in court to give witness, etc. It is against this background that the preceding portion of the verse 'they should not display their beauty and charms except what must ordinarily appear unavoidable' falls into proper perspective. The words 'Illa maa dhahara min'haa' (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا) are in context an exception to the general rule, and cover those cases of genuine need and necessity when a woman is forced to expose her face in the presence of a stranger. That is how the great commentators of the Noble Qur'an have interpreted the verse. Take the following two examples, إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْها أَيْ لَا يُظْهِرْنَ شَيْئًا مِنَ الزِّينَةِ لِلْأَجَانِبِ إلا ما لا يمكن إخفاؤه (تفسير ابن كثير (6/ 41)) 'Women must not display any part of their beauty and charms to strangers except what cannot possibly be concealed.' (Ibn Katheer 6/41) فإن قلت: لم سومح مطلقا في الزينة الظاهرة؟ قلت: لأن سترها فيه حرج، فإن المرأة لا تجد بدّا من مزاولة الأشياء بيديها، ومن الحاجة إلى كشف وجهها، خصوصا في الشهادة والمحاكمة والنكاح، وتضطر إلى المشي في الطرقات وظهور قدميها، وخاصة الفقيرات منهنّ، وهذا معنى قوله إِلَّا ما ظَهَرَ مِنْها يعنى إلا ما جرت العادة والجبلة على ظهوره والأصل فيه الظهور، وإنما سومح في الزينة الخفية. (تفسير الزمخشري يعنى الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل (3/ 231)) 'Why is the woman permitted to display her external beauty and charms? Because to conceal that would cause her inconvenience. A woman is forced to deal in commodities with her own hands. She is compelled by genuine need to expose her face especially at the times of giving evidence, litigating in court and marriage. She is compelled to walk the streets and expose her feet, especially poor women. This is the meaning of 'illaa maa dhahara min'haa' that is 'except what the situations of ordinary life compel her to expose'. (Tafseer Zamakhshari 3/231) A further point is the interpretation of 'illaa maa dhahara min'haa' has been highlighted by the well known scholar, Moulana Ashraf Ali Thanwi (rahimahullah). He states that the verb used is that of the first form 'dhahara' and not 'adhhar' which in forth form signifies a deliberate exposure or display. The use of 'maa dhahara' indicates that the exposure of the face is confined to need. (Imdaadul Fataawa vol. 4 p. 181) It follows from the aforegoing that upon a proper interpretation of the verse the face and hands of a woman can only be exposed to strangers in a situation of genuine need where concealment would cause her serious inconvenience. However, genuine need is not open to wide interpretations. {وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ} [الأحزاب: 53] '…And when you ask them for anything you want, ask them from behind a screen…' (Surah al Ahzaab, Verse 53) The meaning of this verse is clear: the companions of the Holy Prophet (Sallallaahu `alayhi wasallam) were ordered to communicate with the wives of Rasulullah (Sallallaahu `alayhi wasallam) from behind a screen and not directly face to face. It is obvious that this instruction is not limited to the wives of the Holy Prophet (Sallallaahu `alayhi wasallam). The verse has general application and the fact that the noble wives of Rasulullah (Sallallaahu `alayhi wasallam) are specifically mentioned emphasizes the importance of the subject matter. وَهَذَا الْحُكْمُ وَإِنْ نَزَلَ خَاصًّا فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ فَالْمَعْنَى عَامٌّ فِيهِ وَفِي غَيْرِهِ إذْ كُنَّا مَأْمُورِينَ بِاتِّبَاعِهِ وَالِاقْتِدَاءِ بِهِ إلَّا مَا خَصَّهُ اللَّهُ بِهِ دُونَ أُمَّتِهِ (أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي (5/ 242)) The distinguished jurist, Abubakar Jassas rahimahullah in his Ahkaamul Qur'an states: "This order, although revealed specifically in relation to the Holy Prophet (Sallallaahu `alayhi wasallam) is general in application because we are ordered to follow him." Similarly, the well known commentator of the Noble Qur'an, Imaam Qurtubi (RA) in his Al-Jamia li Ahkaamul Qur'an states: …وَيَدْخُلُ فِي ذَلِكَ جَمِيعُ النِّسَاءِ بِالْمَعْنَى، وَبِمَا تَضَمَّنَتْهُ أُصُولُ الشَّرِيعَةِ مِنْ أَنَّ الْمَرْأَةَ كُلُّهَا عَوْرَةٌ، بَدَنُهَا وَصَوْتُهَا، كَمَا تَقَدَّمَ، فَلَا يَجُوزُ كَشْفُ ذَلِكَ إِلَّا لِحَاجَةٍ كَالشَّهَادَةِ عَلَيْهَا،…( تفسير القرطبي (14/ 227)) 'All women are in effect covered by the terms of the verse which embraces the Sharée principle that the whole of a woman is 'Áwrah' (to be concealed) – her body and voice, as mentioned previously. It is not permissible to expose those parts except in the case of need, such as the giving of evidence…' {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [الأحزاب: 59] 'O Prophet! Tell your wives and your daughters and the women of the believers to draw their cloaks (veils all over their bodies (i.e. screen themselves completely except the eyes or one eye to see the way)…' (Surah al Ahzaab, Verse 59) In his commentary to this verse, Allama Abubakar Jassas (rahimahullah) states the following: …دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ المرأة الشابة مأمورة بستر وجها عَنْ الْأَجْنَبِيِّينَ وَإِظْهَارِ السِّتْرِ وَالْعَفَافِ عِنْدَ الْخُرُوجِ لِئَلَّا يَطْمَعَ أَهْلُ الرِّيَبِ فِيهِنَّ (أحكام القرآن للجصاص (5/ 245)) 'This verse proves that a young woman is ordered to cover her face from strangers, and to manifest satrand modesty in public so that doubtful people may not be desirous of her.' It is sufficient to quote the following authentic commentators in their interpretation of the verse: 'They (women), shall cover their faces and bodies with their outer garment when they appear in public for a valid reason.' 'They shall cover their faces and…' Ibn `abbaas (Radhiallaahu Ánhu) states that the Muslim women are ordered to cover their head and faces with outer garments except for one eye.' And Allah Ta'ala Knows Best. Mufti Ebrahim Desai www.askimam.org Source
  17. Six ways one gets deprived from knowledge... COURTESY: @abuhajira
  18. میرا مطالعہ!!ـ عبدالمتین خان زاہد المعروف مولانا زاہد الرّاشدی کا شمار اس دور کے اکابر علمائے دیوبند میں ہوتا ہے۔ موصوف نے درس نظامی کی تکمیل مدرسہ نُصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے کی۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی جمعیت عُلمائے اسلام میں سرگرم رہے۔ نوّے کی دہائی کے وسط میں تحریکی سرگرمیوں سے کنارہ کَش ہوکر علمی و فکری دائرے تک محدود ہوکر رہ گئے۔ بعد ازاں قلم و قرطاس سے رشتہ جوڑا تو متعدد رسائل کے مُدیر اور چند ایک اخبارات کے کالم نویس بنے۔ حالیہ دنوں موصوف جامعہ نُصرۃ العلوم کے شیخ الحدیث، ماہنامہ الشریعہ کے مُدیر اور روزنامہ اسلام و روزنامہ اوصاف کے کالم نگار ہیں۔ موصوف اپنی مُطالعاتی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے مطالعہ کی جانب راغب کرنے، مختلف موضوعات پر کتابیں مہیّا کرنے اور میرے مطالعہ کی مسلسل حوصلہ افزائی اور نگرانی کرتے رہنے میں میرے والد محترم مولانا سرفراز خان صفدر، میرے عمّ مکرّم مولانا صُوفی عبدالحمید سواتی اور ماسٹر بشیر احمد بنیادی شخصیات ہیں۔ میں نے اپنا مطالعاتی سفر کا آغاز چودھری افضل حق مرحوم کی کتاب "زندگی، تاریخِ احرار"، مولانا مظہر علی اظہر کی "دُنیا کی بساطِ سیاست"، آغا شورش کاشمیری کی "خُطباتِ احرار" سے کیا۔ بعد ازاں تاریخی ناولوں کی طرف ذہن مُڑ گیا، نسیم حجازی اور محمد اسلم مرحوم کے ناولوں کا مطالعہ کرنے لگا۔ علمی و تحقیقی دُنیا میں متقدمین میں میرے پسندیدہ مُصنّفین میں امام محمّد، امام بُخاری، ابنِ تیمیہ شاہ ولی اللہ جبکہ دورِ حاضر میں مولانا ابوالحسن علی ندوی، چودھری افضل حق، مولانا مودودی، علامہ اقبال، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی، الاستاذ وہبہ زحیلی، مولانا سرفراز خان صفدر، صُوفی عبدالحمید سواتی اور ڈیل کارنیگی سرِفہرست ہیں۔ مولانا علی میاں کی "تاریخِ دعوت و عزیمت، مغرب سے صاف صاف باتیں" نے مجھے بے حدّ متاثر کیا۔ مولانا مودودی کی مغرب پر تنقید بہت جاندار ہے، اُن کی کتابیں "اسلام اور جدید معاشی نظریات، تنقیحات" بہت مؤثر ہیں۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کی "امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی، برّصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت" شاندار کتابیں ہیں۔ میرے خیال میں مذکورہ تینوں مُصنّفین کی کُتب کا مطالعہ ہر ایک کو کرنا چاہیے۔ اُردو میرے مطالعہ کا اصل دائرہ ہے۔ عربی تدریس کا حصّہ ہے، اس لیے زیادہ تر مطالعہ انہی دو زبانوں میں ہوتا ہے البتہ عربی میں لکھی قدیم تفاسیر کو ہی ترجیح دیتا ہوں، مثلاً "تفسیرِ ابنِ کثیر، تفسیرِ کبیر، تفسیرِ مظہری" مجھے پسند ہیں۔ فارسی سے معمولی شُدبُد ہے، کتابی فارسی تھوڑی بہت سمجھ لیتا ہوں، اس لیے بوقتِ ضرورت اس کے مطالعہ کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ پنجابی میری مادری زبان ہے مگر پڑھنے کا موقع کم ہی ملتا ہے، اگر کوئی چیز مل جائے تو شوق پورا کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ اس کے سوا کوئی زبان نہیں جانتا اور ضروری امور میں تراجم کے ذریعے مقصد پورا کرلیتا ہوں۔ مطالعے کے لیے وقت متعین نہیں ہے۔ مصروفیات میں جو وقت بھی نکل آئے اخبارات و جرائد پر نظر ڈال لیتا ہوں۔ تکیہ کے ساتھ فرشی نشست کو زیادہ پسند کرتا ہوں۔ عام طور پر سیدھا بیٹھ کر پڑھتا ہوں، تھکاوٹ ہو تو نیم دراز ہوجاتا ہوں لیکن لیٹ کر پڑھنے کی عادت نہیں ہے۔ مطالعہ کے لیے تنہائی کی کوشش کرتا ہوں۔ بوقتِ ضرورت شور و شغب میں بھی کام چل جاتا ہے۔ دورانِ مطالعہ کتاب پر نشان لگانے سے گریز کرتا ہوں اور کوئی بات پسند یا ضرورت کی ہو تو نوٹ بُک پر درج کرلیتا ہوں۔ کسی کتاب پر حاشیہ لکھنے کا معمول بھی نہیں ہے۔ زندگی میں اپنے جیب خرچ اور کمائی کا بڑا حصّہ کتاب پر صرف کیا ہے۔ ذاتی اور گھریلو اخراجات کے بعد سفر، کتاب، اسٹیشنری اور ڈاک میری کمائی کے اہم ترین مصارف رہتے ہیں۔ مطالعہ کے ارتقا سے فکر و ذہن کا ارتقا ایک فطری امر ہے۔ میں بھی اس تجربہ سے دو چار ہوا ہوں۔ بہت سی باتیں جن پر ابتدائی دور میں لڑنے مرنے تیار ہوجاتے تھے، اب ہلکی پُھلکی معلوم ہوتی ہیں اور مطالعہ نے رفتہ رفتہ فکر میں توسّع اور تنوّع پیدا کیا ہے، خاص طور پر یہ کہ آج کے حالات میں آزادانہ بحث و مباحثہ کے بغیر کسی بھی مسئلہ میں منطقی نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں ہے اور عالمی ذرائع ابلاغ اور تعلیمی مراکز نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مختلف اطراف سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی جو مہم شروع کر رکھی ہے، اُس کے اثرات سے نئی نسل کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمارا روایتی اسلوب کافی نہیں بلکہ اُس کے لیے پائیدار مطالعہ اور ٹھوس تحقیق کی ضرورت ہے۔ ( معروف اہلِ علم کی مُطالعاتی زندگی پر مشتمل کتاب "میرا مطالعہ" سے اقتباس) https://t.me/bookscircle
  19. Translation: There is one man who does dhikr regularly but he is also involved in sins. On the other hand there is another man who is involved in sins and at the same time he does not remember Allah (SWT). The former one is ZAKIR GUNAHGAR while the latter is GHAFIL GUNAHGAR (reckless sinner) The zakir gunahgar does not attain full pleasure from his sins. Due to the barakah of his dhikr, he has some hidden fear that does not allow him to completely enjoy his sins. And it is relatively easy to leave this deficient enjoyment. While the reckless sinnner attains full pleasure from his sins, and it is quite difficult to leave this full pleasure. So even if it is difficult to leave sins, do not leave Allah. InshaAllah the sins will get forsaken automatically. Make it your regular habit by setting a time each day to recite these four tasbeehat: 1. Lailaha illallah 2. Allah Allah 3. Istaghfar 4. Durood Shareef From the teachings of Shaykh Hazrat Hafiz Shah Muhammad Ahmed Sahab DB
×
×
  • Create New...