-
Posts
1,749 -
Joined
-
Last visited
-
Days Won
106
Content Type
Profiles
Forums
Events
Everything posted by Bint e Aisha
-
الْمُحْصِي Translation الْمُحْصِي is translated as The Reckoner and The Appraiser. It comes from Ihsaab and has more of a quantification meaning i.e. it has the concept of enumeration, counting. Allah ta’ala says in the Qur’an, وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ If you want to count the favours of Allah, you will never be able to number them [Surah Nahl: 18] Definition الْمُحْصِي is that being that knows each separate thing absolutely and knows the limit of each object and its quantity and dimension. In Surah Jinn, verse 28, Allah ta’ala says, وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا - and keeps a count of each and everything Allah ta’ala is that Being Who knows the exact numbers of particles of dirt on the mountains, the number of rain drops that fall, the number of drops of water in the ocean, the number of leaves on the trees. With all the technology in this age scientists give estimations and come up will mind boggling numbers of things in the universe however Allah ta’ala knows the exact number of everything in the universe from the beginning of time till the end. Someone said, “You can find God in the detail” Beautiful Du’a of a Bedouin which includes the Concept of Enumeration Anas RA reports that Rasoolullaah sallallahu ’alayhi wasallam passed by a bedouin while he was supplicating in Salaah and Rasoolullaah sallallaahu ‘alayhi wasallam stopped to listen to him. Thereafter Rasoolullah sallallahu’ alayhi wasallam sent someone to fetch him saying when he finished praying and when he was brought to him Rasoolullah sallallahu ’alayhi wasallam gave him gold which had been given to him as a gift. The Du’a is as follows, يا منْ لاَّ تَرَاهُ العُيُون Yaa Man La Taraahul ‘Uyoon O the one who eyes cannot behold in this world ولا تُخالِطُهُ الظُّنُون Wa Laa Tukhaalituhudh-Dhunoon and minds cannot comprehend His greatness ولا يَصِفُهُ الْوَاصِفُون Wa Laa Yasifuhul Waasifoon and people cannot praise Him as he deserves to be praised ولا تُغَيِّرُهُ الْحَوَادِث Wa Laa Tughayyiruhul Hawaadith and situations do not change him ولا يَخْشَى الدَّوَائِر Wa Laa Yakhshad-Dawaa’ir and he does not fear the passing of time يَعْلَمُ مَثاقِيلَ الْجِبال Ya’lamu Mathaaqeelal Jibaal He knows the exact weight of the mountains وَمَكايِيْلَ الْبِحار Wa Makaa-yeelal Bihaar And the volume of the oceans وَعَدَدَ قَطْرِ الأمْطار Wa Adada Qatril Amtaar And the number of drops of rain وَعَدَدَ وَرَقِ الأشْجار Wa Adada Waraqil Ashjaar And the number of leaves on trees وَعَدَدَ مَا أُظْلِمُ عَلَيْهِ الْلَيْل وَأشْرَقَ عَلَيْهِ النَّهار Wa Adada Maa Udhlima Alayhil Layl. Wa Ashraqa Alayhin-Nahaar And those things that the day illuminates with its light and the night hides in its darkness ولا تُوَارِي مِنْهُ سَمَاءٌ سَمَاءً، وَلا أرْضٌ أرْضَاً Wa Laa Tuwaari Minhu Samaa’un Samaa’, Wa Laa Ardun Ardaa’ And one sky cannot shield another sky, and no ground can shield another layer of ground from Allah وَلا بَحْرٌ مَا فِي قَعْرِهِ Wa Laa Bahrun Maa Fee Qa’rihi And the ocean (in its depths and darkness) cannot hide anything from Allah وَلا جَبَلٌ مَا فِي وَعْرِهِ Wa Laa Jabalun Maa Fee Wa’rihi And a mountain cannot (in its deepest darkest cave) hide anything from Allah اِجْعَلْ خَيْرَ عُمْرِي آخِرَه Make best part of my life the last part of my life وَخَيْرَ أيَّامِي يَوْمَ ألْقَاَكَ فِيْه وَخَيْرَ عَمَلِي خَوَاتِيْمَه and make the best of my action the action that I do in this life and the best day the day I return back to meet You. [Al-Mu’jamul-Awsat of Tabarani, hadith: 9448] الْمُحْصِي - in terms of Recording Deeds Allah ta’ala is الْمُحْصِي in terms of our books of deeds. Everything is recorded , written down, preserved. Allah ta’ala says in the Qur’an, وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا “But We have placed on record every single thing [of what they did]” [Surah Naba’: 29] Counsel To have Yaqeen (Certainty) that Allah ta’ala is watching and everything, whether it’s our actions or intentions and feelings, is being recorded and preserved. Our deeds do not have to be written down but they are. People who have the Ma’rifah regarding this name are careful how they spend their time and how they use their bodies, wealth, etc. as they have Yaqeen that everything is being counted and recorded. There is Barakah in writing things down. In our age there are courses and advices given on how to be organised and one of the things which are emphasised is writing things down i.e. making lists, writing down goals and resolutions etc. *~~*~~*
-
We too shall die and leave behind everything.
-
We are pleased to inform you that the spiritual advises of Mufti Ebrahim Desai (Hafidhahullah) are available on youtube at the following link. https://www.youtube.com/channel/UCWTBjA3zZvoNmkVvCBem0XA
-
My posts have not been approved
Bint e Aisha replied to hamza81's topic in Announcements / Questions / Feedback
Walaikumus Salam warahmatullah @ummtaalib -
- 36 replies
-
- inspiration
- motivation
-
(and 1 more)
Tagged with:
-
Half-Time Reflections - How did the first half go?
Bint e Aisha replied to Bint e Aisha's topic in Ramadhaan
Bump -
Dr. Israr Ahmed RA is my role model!
-
40 Quick, Easy & Rewarding Good Deeds to do Everyday in Ramadhan!
Bint e Aisha replied to hamza81's topic in Ramadhaan
جزاك الله خيرا for all your posts and reminders. -
Reliable Telegram Channels
Bint e Aisha replied to Bint e Aisha's topic in General Islamic Discussions
The aim of this channel is to provide information regarding depression from the medical and Islamic perspectives. https://t.me/do_not_be_depressed- 3 replies
-
- telegram
- reliable sources
-
(and 1 more)
Tagged with:
-
Khilaaf vs Ikhtilaaf Does every opinion count in the Deen? Does a Shaykh saying something different to other Ulamaa automatically make it a valid difference of opinion?
-
#دوسری_قسط 📬 💌 باب العبر 💌 📬 ╮•┅══ـ❁🏕❁ـ══┅•╭ ❁باب العبر❁ عام طور پر علماء ومشائخ اپنی تقاریر اور مجالس میں اعمال اور اذکار واوراد کے فضائل ہی بیان کرنے پر قناعت کرتے ہیں اور مختلف پریشانیوں اور آفتوں کا علاج مختلف وظائف اور کچھ سورتوں کا پڑھ لینا بتا دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ جِنّات بهگانے کے لیے اور مصائب وآفات سے بچنے کے لیے قرآن خوانیوں کی مجالس تو کرتے ہیں لیکن قرآن کریم کے احکام کی علانیہ بغاوت کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مصائب اور پریشانیوں کے جال میں اور زیادہ پهنستے چلے جاتے ہیں- مصائب اور پریشانیوں کا جو علاج اللہ تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ نے بیان فرمایا ہے اسے نہ اس دور کے علماء ومشائخ بیان فرماتے ہیں اور نہ عوام کی توجہ اس علاج کی طرف ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالٰی کا واضح اعلان ہے کہ سکونِ قلب اور دنیا میں راحت وسرور صرف اسے ہی نصیب ہوگا جو اپنی زندگی اللہ تعالٰی کی مرضی کے مطابق گزارے گا اس کی بغاوت اور نافرمانیوں سے دور رہے گا- ہمارے معاشرے میں الحاد وبے دینی اور منکرات کے پھیلنے کی وجہ یہ ہے کہ علماء ومشائخ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ترک کر رکها ہے- قرآنِ کریم میں ہے کہ علماء بنی اسرائیل پر اسی فریضہ کے ترک کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے لعنت کی- قرآن وحدیث میں اس فریضہ کو ترک کرنے پر بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں- بحمد الله تعالٰی حضرتِ والا کی مجالس ومواعظ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا منبع ہیں، کہیں بهی گناہوں سے بچنے کی بات ہوگی یا اس کی تبلیغ کی جائے گی تو تحقیق کے بعد ثابت ہوگا کہ وہ حضرتِ والا ہی کی مجلس کا اثر و ثمرہ ہے، جو گناہ معاشرہ میں اس طرح داخل ہو چکے ہیں کہ انہیں گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا، امت کو ان گناہوں سے بچانے میں اللہ تعالٰی نے حضرتِ والا کو خاص امتیاز بخشا ہے- جو لوگ حضرتِ والا کی مجالس میں شریک ہوتے ہیں طلبِ صادق کے ساتھ حضرتِ والا سے اصلاحی تعلق قائم کرتے ہیں چند ہی روز کے بعد ان کا یہ حال ہو جاتا ہے ؎ سمجھ کر اے خرد اس دل کو پابند علائق کر یہ دیوانہ اڑا دیتا ہے ہر زنجیر کے ٹکڑے حضرتِ والا سے تعلق کے بعد تعلق مع الله اور تصلّب فی الّدین کی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا تعلق بهی انہیں صراطِ مستقیم سے ہٹا کر اللہ تعالٰی کی نافرمانی اور بغاوت پر آمادہ نہیں کر سکتا، جو گناہ معاشرہ میں وباء عام کی صورت اختیار کر چکے ہیں جیسے بے پردگی، ڈاڑھی کٹانا یا منڈانا، تصویر رکهنا اور سوئم چہلم وغیرہ بدعات- ان گناہوں سے بچنے کا حضرتِ والا کے متعلقین میں خاص اہتمام پیدا ہو جاتا ہے- ایسے بے شمار واقعات پیش آتے رہتے ہیں کہ کسی نے حضرتِ والا کی ایک دو مجلسوں میں شرکت کی یا کسی مطبوع وعظ کا مطالعہ کیا یا وعظ کی کوئی کیسٹ سنی اور اس کے دل کی دنیا میں ایک انقلابِ عظیم برپا ہو گیا- تمام چهوٹے بڑے گناہوں سے بچ کر ایک سچا پکا مسلمان بننے کا بے پناہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے- ان بے شمار عبرت آموز واقعات کے پرچوں میں سے بعض پرچے حضرتِ والا جمعہ کی مجالس میں ”باب العبر“ کے عنوان سے پڑهوا کر سنوایا کرتے ہیں اور حاضرین کو سنانے سے دو مقاصد گاہے گاہے بیان فرماتے رہتے ہیں: (۱) دوسروں کے واقعات سن کر ہمت بلند ہو کہ اللہ تعالٰی نے دوسروں کو گناہوں سے بچنے کی ہمت عطاء فرمائی آخر وہ بهی ہم جیسے انسان ہیں اور اِسی زمانہ میں، اِسی ماحول میں، اِسی معاشرے میں رہتے ہیں جس میں ہم (رہتے ہیں) پهر ہماری ہمت کیوں نہیں بلند ہوتی؟ (۲) جن قلوب پر اللہ تعالٰی کی یہ رحمت ہوئی ان کا واسطہ دے کر اللہ تعالٰی سے یوں دعاء کی جائے: "یا اللہ! تو نے جو رحمت ان لوگوں کے دلوں پر نازل فرمائی ہے وہ رحمت ہمارے دلوں پر بهی نازل فرما، جیسے تو نے ان کی دستگیری فرما کر انہیں گناہوں سے بچنے کی ہمت عطاء فرمائی ہے اسی طرح ہماری بهی دستگیری فرما اور ہمیں بهی گناہوں سے بچنے کی ہمت عطاء فرما-" انہی مقاصد کے پیشِ نظر یہاں چند عبرت آموز واقعات کے پرچے نقل کئے جاتے ہیں تاکہ ان سے دُور اُفتادہ قارئین بهی عبرت اور سبق حاصل کر سکیں... (جاری ہے) 📚انوار الرشید ج۲ ص۲۳۷ تا ۲۴۰📚 ”مفتی اعظم حضرتِ اقدس مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نصیحت آموز وبصیرت افروز حالات وارشادات“ ✍حضرت مولانا احتشام الحق آسیا آبادی رحمۃ اللہ علیہ (رئیس جامعہ رشیدیّہ آسیا آباد، مکران بلوچستان)
-
تصوف کے بارے میں پائے جانے والے سوالات اور اُن کے جوابات ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ دوسری قسط ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ صوفیائے کرام کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ نبی کریمﷺ کی جن چار بنیادی ذمہ داریوں کو قرآن پاک کی سورہ آ لِ عمران آیت۱۶۴ میں بیان کیا گیاہے،وہ یہ ہیں: (۱) قرآن پاک کی تلاوت (۲) قرآن پاک کی تعلیم (۳) حِکمت کی تعلیم (۴) تزکیہ (یعنی عقائد اور اعمال کی اصلاح کرنا) حضور ﷺ کی وفات کے بعد یہ چاروں کام صحابہ کرامؓ نے سر انجام دیئے اور اُن کے بعد تابعین اور تبع تابعین نے۔ بعد میں ان میں سے ہر ذمہ داری کو سر انجام دینےکے لئے ماہرین تیار ہوئے، جن سے اﷲ تعالیٰ نے اُس میدان میں تفصیلی کام لیا۔ قرآن ِ پاک کی تفسیر کرنے والے (مُفَسِّرین) ،حدیث کےالفاظ کی حفاظت کرنے والے(مُحَدِّثین)، قرآن پاک کی درست تلاوت سکھانے والے (قاری حضرات)اوردین کی سمجھ بُوجھ رکھنے اورتمام مسائل کا حل اُمَّت تک پہنچانے والے ( فُقہاء) کی الگ الگ جماعتیں بنیں۔ بالکل اسی طرح قلب اور نفس کی تربیت کے شعبہ یعنی”تزکیہ نفس“ کو بطورِ خاص جِن بُزرگوں نے اپنی محنت کا میدان بنایا وہ بزرگان دین ’’صوفیائے کرام‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ چنانچہ جس طرح تفسیر، حدیث اور فِقَہ وغیرہ کی تعلیم کے لئے استاد کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح عقائد اور اعمال کی اصلاح کے لئے بھی کسی رہنما اور اُستاد کی ضرورت پڑتی ہے جسے ”پیر“ ،”مُرشد“ یا ” شَیخ “ کہا جاتا ہے۔ (اقتباس از ”تصوف کی حقیقت“) #تصوف_سیریز
-
Imaam Ibn al-Qayyim said: يَقول ابن القيم رحمه الله – الحُزنُ يُضعِفُ القَلب ، ويُوهن العَزم ويَضُر الإرادَة ، ولا شيءَ أحب إلى الشيطان مِن حُزن المؤمن “Grief weakens the heart and determination, & hurts the will ; and nothing is more beloved to Shaytan than a sad believer”. From his book Tareequl Hijratain [طريق الهجرتين1/418]
-
‘Allāmah Qāsim ibn Qutlūbughā (802 – 879 H), the chief Hanafī jurist and muhaddith of his time, mentions in a treatise he wrote on Tarāwīh and Witr: Al-Hasan [ibn Ziyād] (d. 204 H) narrated from Abū Hanīfah: The standing [in prayer] of Ramadān is Sunnah [Mu’akkadah] which should not be left out. The people of each masjid should pray it in their masjid, on every night [of Ramadān] in five tarwīhahs [sets of four rak‘ahs]. A man leads them, reciting in every rak‘ah ten verses or so, making salām in every two rak‘ahs. Every time he prays one tarwīhah, he waits between two tarwīhahs the length of one tarwīhah, and he waits after the fifth [tarwīhah] the length of one tarwīhah and then he performs Witr with them, so it amounts to 20 rak‘ahs, besides Witr. Qāsim ibn Qutlūbughā’ then says: And this is the madhhab of our [Hanafī] companions, may Allāh have mercy on them. [Majmū‘ah Rasā’il Qāsim ibn Qutlubugha] You can join our Telegram Channel by following this link: https://t.me/hanafigems Don't use Telegram? Don't worry, you can still follow us on Facebook: https://facebook.com/HanafiGems/ And Twitter: https://twitter.com/HanafiGems
-
RAMADHĀN REMINDER Ibn Rajab rahimahullāh says: لم لا يرجى العفو من ربنا وكيف لا يطمع في حلمه وفي الصحيح: أنه بعبده أرحم من أمه: {قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً} [الزمر: 53] . فيا أيها العاصي وكلنا ذلك لا تقنط من رحمة الله بسوء أعمالك فكم يعتق من النار في هذه الأيام من أمثالك فأحسن الظن بمولاك وتب إليه فإنه لا يهلك على الله (الا) هالك. Why shouldn't we hope for forgiveness from our Lord and why shouldn't we long for His Forbearance while in the authentic [collections of Bukhārī and Muslim] we read: “He is more Merciful to His servant than their mother is to them.” [And, in Qur'ān, Allāh, the Most High, says:] “Say, ‘O My servants who have transgressed against themselves [by sinning], do not despair of the mercy of Allah. Indeed, Allah forgives all sins. Indeed, it is He who is the Forgiving, the Merciful.’” Listen to me then, O sinner! And we all are sinners, don't despair of the Mercy of Allāh because of the evil of your deeds. [Imagine] how many people like you are freed from the Fire in these days, so think well of your Protector and repent to Him, for Allāh does not bring down destruction on anyone except for him who seeks destruction for himself. [لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف، دار ابن حزم، 213]
- 1 reply
-
- 1
-
-
#پہلی_قسط 📬 💌 باب العبر 💌 📬 ╮•┅══ـ❁🏕❁ـ══┅•╭ حرفِ آغاز: عام طور پر لوگوں کا مزاج یہ بن گیا ہے کہ ان کی اصلاح ورہنمائی کے لئے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے واقعات بیان کرو تو کہتے ہیں: ”یہ تو انبیاء کرام کے قصے ہیں-“ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم کا تذکرہ کرو تو جواب ملتا ہے: ”اجی وہ تو صحابہ کرام تهے-“ اولیاء کرام رحمهم الله تعالٰی کا ذکر کیا جائے تو جواب یہ ہوتا ہے: ”صاحب! وہ تو اولیاء اللہ تهے، ہم ان تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟“ "وہ پرانے لوگ تهے جو کر گئے کر گئے، اب ان جیسی زندگی بنانا کسی کے بس میں نہیں-" یہ بموجبِ نصِ قرآن: لا َیُکَلِّفُ اللہ ُنَفْسًا اِلا َّوُسْعَهَا (٢-٢٨٦) "اللہ تعالٰی کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتے-" الله تعالٰی پر الزام ہے، جس سے کفر کا اندیشہ ہے، الله تعالٰی نے قرآن کریم میں ان قدسی حضرات کے واقعات وحالات بیان ہی اس لئے فرمائے ہیں کہ امت ان سے ہدایت حاصل کرے، جو شخص نہ کسی نبی کی زندگی کا اتباع کرنے کو تیار ہے، نہ کسی صحابی اور ولی کی- اس کے لیے قابلِ اتباع پهر شیطان ہی رہ جاتا ہے- اللہ تعالٰی کا اپنے بندوں پر احسانِ عظیم اور بے انتہا شفقت ہے کہ ہر دور میں ایسے لوگ کثیر تعداد میں موجود رہے ہیں جو ان حضرات کا کامل اتباع کر کے اتمامِ حجت کرتے رہے ہیں، زیرِ نظر کتاب "باب العبر" میں اس پُرفتن دور کے ان خوش قسمت لوگوں کے حالات ہیں جن کو حضرتِ اقدس کی صحبت کی برکت سے وہ قوت وہمت حاصل ہوئی کہ انہوں نے نفس وشیطان اور بے دین ماحول و معاشرہ کے خلاف جہاد کر کے دین پر عمل کرنے کو ممکن ثابت کر دیا، کسی کو یہ کہنے کا منہ نہ رہا کہ اس زمانے میں اوامر کا بجا لانا اور نواہی سے بچنا کسی کے بس کی بات نہیں- یہ کتاب در حقیقت حضرت اقدس دامت برکاتهم کی سوانح حیات "انوار الرشید" جلد ثانی کا ایک باب ہے، "انوار الرشید" پانچ جلدوں میں ہے، اس میں سے اس باب کو الگ شائع کرنے میں مندرجہ ذیل فوائد پیشِ نظر ہیں: (۱) اس کا فائدہ زیادہ سے زیادہ عام ہو- (۲) قارئین کے سامنے یہ بات آ جائے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی اللہ تعالٰی کے ایسے برگزیدہ بندے موجود ہیں جن کی صحبت کی تاثیر سے زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے اور معاصی و منکرات سے حفاظت کی بدولت یہ دنیا جنت کا نمونہ بن جاتی ہے- (۳) قارئین بدعات و رسومات اور دیگر منکرات سے بچنے والے لوگوں کے حالات پڑھ کر ان کے وسیلہ سے دعاء کریں: "یا اللہ! تیری جو رحمت تیرے ان بندوں کی طرف متوجہ ہوئی، ہماری طرف بهی متوجہ فرما-" (۴) آج کل بہت سے دین دار کہلانے والے لوگ بهی بہت سی بدعات ومنکرات میں مبتلا ہیں اور ان کو معلوم بھی نہیں کہ یہ بدعت یا گناہ ہے- ان کو اس کا علم ہو جائے- (۵) اپنے ہی جیسے گناہوں کے تقاضے رکهنے والے اور اسی ماحول ومعاشرہ میں شب وروز کے تمام امور انجام دینے والے لوگوں کے حالات دیکھ کر بے ہمت کی ہمت بلند ہو، کم حوصلہ کا حوصلہ بڑهے اور غافل کو اصلاح کی فکر پیدا ہو- تجھ کو جو طریقِ عشق پہ چلنا دشوار ہے تو ہی ہمت ہار ہے ہاں تو ہی ہمت ہار ہے ہر قدم پہ تو جو رہرو کها رہا ہے ٹھوکریں لنگ خود تجھ میں ہے ورنہ راستہ ہموار ہے ❁ ❁ ❁ ـ ❁ ❁ ❁ طالب تیری مجذوب اگر تام ہو ابهی زیبِ پہلو دل آرام ہو یہ کوشش جو تیری ہے کوشش نہیں وہ کوشش ہی کب ہے جو ناکام ہو ❁ ❁ ❁ ـ ❁ ❁ ❁ تمہیں بیٹهے جو دیکها تو کوئی پیر ِمغاں دیکها تمہیں چلتے جو پایا تو جوانوں سے جواں دیکها نہیں دیکها کوئی تم سا بہت دنیا جہاں دیکها تمہارے حسن میں میں نے عجم نوری سماں دیکها ہزاروں دل کئے سیراب تیری مست آنکھوں نے تیرے ہی روپ میں سب نے مسیحائے زماں دیکها جو اہلِ باطل وشیطاں کے دل کو بهی جلا ڈالے تمہارے وعظ میں ہم نے وہی آتش فشاں دیکها تو فقہِ ظاہر و باطن کا ایسا شمسِ کامل ہے ستارے ماند پڑتے ہیں جہاں تجھ کو عیاں دیکها "عمَر" کے زور سے باطل پہ سناٹا رہا ہر دم قلم میں آپ کے سب نے وہی تاب و تواں دیکها یہ عالَم آج تو تیری محبت میں مٹا ایسا تمہی کو دل، تمہی کو جاں، تمہی کو جانِ جاں دیکها (جاری ہے)
-
-
Islamic blogs and links
Bint e Aisha replied to Umm Khadeejah's topic in General Islamic Discussions
https://pearlsoftaqwa.wordpress.com/ -
"Who Created God Then?" by Shaykh Mohammad Yasir al-Hanafi Who created God then? This is the outdated cliché of an atheist. Many classical scholars have addressed this question. In the books of creed, the concept is known as ‘Burhān al-Tatbīq’, where the question of Allāh’s existence is discussed. For example, the famous creed of Imām al-Taftāzānī *Sharh al-’Aqā’id al-Nasafiyyah* - that is taught in the Islamic institutes - also discusses this concept. From the English books, Hamza Tzortzis’s book, which I encouraged people to read yesterday, elucidates the answer to this question using the famous Quranic verse. I’ll briefly adumbrate the main key points of this Quranic argument. The whole two verses are in Surāh al-Tūr (35/36): أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ۰أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَل لَّا يُوقِنُونَ “Were they created from nothing, or are they creators themselves? Or [if as they say, Allāh did not create everything, then] did they [themselves] create the heavens and the earth? The fact is that they have no conviction”. From the aforementioned verse, four scenarios - explicit and implicit - can be inferred: 1. Creation was created from nothing. ‘من غير شيء’ can have a few interpretations: created without any purpose, created without a creator or created from nothing, as mentioned by Imām al-Rāzī. The translation is based on the latter interpretation; 2. Creation are creators of themselves; 3. Everything being created by a created being; 4. And, finally, everything being created by an uncreated being. Now, let’s discuss the first scenario: everything created from nothing, as many atheists say, including the contemporary scientist, Richard Dawkins. There was a video where he mentioned this and the public began to laugh at him. Anyway, this post is not about him. Why is this scenario void and nonsensical? Well, it’s pretty obvious because *nothing* by definition is non-existence, which never has and never will produce existence. From nothing comes nothing. Let me give you an example: you are in a completely locked room - nothing can enter it nor exit from it- and you decide to sleep; after an hour you wake up and you see a brand new bicycle, and next to it you find a note saying, “I came from nothing”. What will your initial reaction be? Will anyone actually believe that the bicycle came into that looked room from nothing? Of course not. So, can the entire universe and cosmos, which are beautifully designed, come from nothing?! The second scenario, creation being creators of themselves, is void because it necessitates a contradiction: existence and non-existence exactly at the same time, like the profound example brother Hamza gives: can a mother give birth to herself? I believe this scenario is Zāhir al-Butlān (explicitly void) as the first scenario. The third scenario, creation coming into existence by a created force or being, is also void, as this necessitates infinite regress of causes. For example, in the scenario of an atheist, when he asks: who created God? He has inevitably pictured a God to be a created entity in his finite and feeble mind. Thus, leading to a sequence of questions: who created God number two that created God number one, and who created God number three that created God number two, etc. This infinite regress will continue forever; hence, nothing will come into existence, as God number one’s existence is dependent on number two, and number two is dependent on number three, etc. So, number one will never come into existence; thus, there will be no creation. The example that can be given to explain this further is of a person who is about to hunt an animal, but, before he shoots the animal, he needs permission from person number two, and person number two needs permission from person number three, etc. Now, if this carries on forever, will the first person ever shoot the animal? The answer is obviously no. In the same manner, infinite regress of causes, in the God scenario, will necessitate the denial of the initial creation. In order words, questioning who created God is denying your own existence. This finally leads us onto the only sound and true scenario: everything is created by an uncreated being. The Muslims, based on Divine evidence, believe this being to be Allāh, the Almighty, who is transcendent from all weaknesses, flaws and contingencies. He, the All-Knowing, is unmitigatedly free from being created. The word created doesn’t apply to the ultimate Creator, rather it applies to the creation. “It is He Who originated the [initial] creation and will repeat [the act of creation], and this [reviving the creation] will be easier for Him” (Sūrah al-Rūm, verse 27). Source
-
تصوف کے بارے میں پائے جانے والے سوالات اور اُن کے جوابات ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ پہلی قسط ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تصوف کیا ہے؟ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ” تصوف“ دین کاایک اہم شُعبہ ہے جس میں انسان کے”دِل“ اور ”نَفس“ کو پاک اورصاف کرکےاس کی اصلاح کی جاتی ہےتاکہ اللہ تعالیٰ کامستقل دھیان اوررَضا حاصل ہوجائے۔ اصلاح کے دواجزاء ہیں: (1) ظاہری اصلاح (2) باطِنی اصلاح 1. ظاہری اصلاح سے مُراد یہ ہے کہ >> ظاہری اعضاء سے صادِر ہونے والے گناہ (مثلاًجھوٹ،غیبت ،چوری،زِنا وغیرہ) چُھوٹ جائیں اور >> عبادات ،معاملات اور معاشرت(یعنی زندگی کے ہر شعبے میں) میں اچھی صفات اپناکر مکمل دین پرعمل ہونےلگے۔ 2. باطنی اصلاح سے مُرادیہ ہے کہ => عقائد درست ہو جائیں، => اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پرایمان مضبوط ہو جائے، => دِل اور نفس کے گناہ اوربُری صفات ( مثلاً حَسَد، بغض ، ریا، تکبراور کینہ وغیرہ )کی اصلاح ہو جائے اور => اچھی صفات (مثلاًاللہ تعالیٰ کی محبت، اللہ تعالیٰ کا خوف، عاجزی، اخلاص، صبر، شُکر، توکَّل، تسلیم ورضا وغیرہ)حاصل ہوجائیں۔ 3. اللہ تعالیٰ کے دھیان کی کیفیت حاصل کرنے سے مُرادیہ ہے کہ => زندگی کے ہر معاملہ میں یہ کیفیت نصیب ہو جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوں اور وہ میرے ہر ارادے ،عمل اورحرکت کو دیکھ رہا ہے ۔یہ کیفیت مستقل طور پر حاصل ہو جائے تو دین پر عمل کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے اورہرعمل کرتے وقت نیت صرف یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے۔اِس کیفیت کو ”کیفیتِ احسان “ کہتے ہیں۔یہ دین کی اصل ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ کیفیت حاصل تھی اوراِسی کیفیت کو حاصل کرنے کے لئےراہِ تصوف میں مُرشد کی رہنمائی میں مختلف اذکار اور مُراقبات کرائے جاتے ہیں۔ کیفیتِ احسان کا ذکر بخاری شریف (باب الایمان) کی حدیث میں آیا ہوا ہے،جسے حدیثِ جبرائیل بھی کہتے ہیں ۔ فوائد: اس ظاہری اور باطنی اصلاح کےنتیجہ میں؛ => عقائد درست ہو جاتے ہیں اور دل میں محبتِ الٰہی،خوفِ الٰہی اورفکر آخرت جیسی مبارک کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں، => اچھی صفات پیدا ہو جاتی ہیں، => نیک اعمال کرنے کی توفیق مل جاتی ہے اور => غلط عقائد، بُری صفات اور بُرےاعمال سے نجات حاصل ہوجاتی ہے۔ => اچھی صفات کو اخلاقِ حمیدہ اور بُری صفات کو اخلاقِ رَذیلہ کہتے ہیں۔ مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں تصوف کی مختصر تعریف ہم یوں بھی کر سکتے ہیں کہ ؛ ”ظاہر اور باطِن کی اصلاح کا نام تصوف ہے“ یا ”اعلیٰ درجے کا ایمان اور تقویٰ حاصل کرنے کانام تصوف ہے“ نَفس کی اصلاح کرنے کو”تزکیہ نَفس “ اور دِل(قَلب) کی صفائی کے عمل کو” تَصفِیہ قَلب“کہتے ہیں۔ تصوف کو ” طَریقت“ اور”سلوک“ وغیرہ کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا وضاحت سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ”تصوف دراصل دین اسلام کے ایک اہم شعبہ”اخلاقیات“ ہی کا دوسرا نام ہے۔ “ (اقتباس از ”تصوف کی حقیقت“) #تصوف_سیریز
-
تصوف کے بارے میں ہمارا معاشرتی رویہ اور چند ضروری گذارشات تَصَوُّف( پیری مریدی ، طریقت، صُوفی ازم ) کے بارے میں ہمارے معاشرے میں دو انتہائیں (Extremes) پائی جاتی ہیں۔ایک طبقہ تو تصوف سے وابستہ ہوکر اپنے مشائخ کو (نعوذ باللہ) خدائی اختیارات کی حامل شخصیات تصور کرکےاُن کے ہر قول و عمل کو قرآن و حدیث ہی کی طرح درست اورقابل تقلید تسلیم کرتا ہے ، چاہے وہ قرآن و سنت اور اجماع امت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا طبقہ تصوف کو سِرے سے دین کا حصہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں اور تربیت و اصلاح کے اس نظام کو بدعات کا مجموعہ سمجھتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تصوف کے اصل شرعی تصوّر کو سامنے لایا جائے اور عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو دور کیا جا ئے۔چنانچہ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہم آج سے تصوف کے موضوع پر سوال وجواب کا ایک سلسلہ شروع کر رہے ہیں جس میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیئے جائیں گے: • تصوف(صوفی ازم،پیری مریدی) کیا ہے؟ • قرآنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں مقاصدِ تصوف کا ذکر؟ • صوفیائے کرام کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ • کیا علم تصوف فرض عین ہے؟ • تصوف کیا نہیں ہے۔۔۔ معاشرے میں تصوف کے بارے میں پائے جانے والے تصورات • نَقشبَندی، چِشتی، سُہروَردی اور قادری سلسلوں کی حقیقت کیا ہے؟ • کیا نئے طریقوں سے ذکر کرنا بدعت نہیں؟ • کیا اسلام میں پیری مُریدی کی گنجائش ہے؟ • کیا تصوف کا لفظ قرآن و حدیث میں موجود ہے؟ • بَیعَت سے کیا مُراد ہے؟ • کیااصلاح کے لئے قرآن وحدیث کافی نہیں ؟ کیا پِیر سے تعلق قائم کرنا ضروری ہے؟ • کیا ہر شخص کو پِیربنایا جاسکتا ہے؟ • کیا خواتین بھی بیعت کر سکتی ہیں؟ • پِیر اپنے مُرید کی اِصلاح کیسے کرتا ہے؟ • کیا دین کے دوسرے شعبوں کےکارکنوں اور رہنماؤں کے لئے بھی بیعت ہونااور کسی پیر کے ذریعے اپنی اصلاح کرا نا ضروری ہے؟ • کیا جدیددَورکے مسلمان کے لئے تصوف کی راہ پرچلنا ضروری ہے؟ • کیاتصوف معاشرے کی اِصلاح میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ • کیا صوفیائے کرام ، معاشرے میں دین کو نافِذ کرنے کی کوششوں میں کردارادا نہیں کرتے؟ • کیا صوفیائے کرام جہاد میں حصہ لینے کو ضروری نہیں سمجھتے؟ اہم وضاحت: تصوف،پیری مریدی اور طریقت کےموضوع پر جتنی پوسٹس شئیر کی جائیں گی ( ان شاء اللہ) ان سب کا بنیادی مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ دین کے اس شعبے کی اصل حقیقت عوام کے سامنے لائی جا ئے لیکن اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ تصوف، پیری مریدی اور طریقت کا نام استعمال کر کے ہمارے معاشرے میں بدعات وخرافات اور استحصال کا جوبازار گرم ہے اور اس شعبے کو بعض مفاد پرست عناصرجس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں، وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے. ان پوسٹس کو کبھی بھی ایسے دین فروشوں کی تائید نہ سمجھا جائے۔ ان پوسٹس کا اصل مقصدصرف تصوف کی اس اصل شکل کو پیش کرنا ہے جس کو قرآن پا ک میں تزکیہ اور احادیث مبارکہ میں "احسان" سے پکارا گیا ہے اور جس کی تبلیغ و ترویج کے لیے حضرت حسن بصری ؒ، امام غزالیؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ جیسے علماء و اولیاء نے اپنی ساری زندگی وقف کی اور عوام کے سامنے اس کی اصل تصویر رکھی۔ دوسری گذارش یہ ہے کہ ان پوسٹس میں علمی انداز اور تفصیلی دلائل کے بجائے مختصر اور عام فہم اندازمیں سوالات کے جوابات دیئے جائیں گے۔تفصیلی اور علمی مباحث کے لئے اہم کتابوں کی نشاندہی کی جائے گی ان شاء اللہ۔ #تصوف_سیریز